جو ہوا سو ہوا بھول گئے کس نے کیا غم زدہ بھول گئے اس قدر ہو گئے غم کی نظر کس نے دی ہم کو صدا بھول گئے یوں اندھیروں سے ہوئی ہے دوستی کب جلا کوئی دیا بھول گئے دکھ اکھٹے کرنا اپنا شوق ہے کس دی کیسی سزا بھول گئے ہاتھ بھی اب مانگنے اٹھتے نہیں ہونٹ بھی اب کرنا دعا بھول گئے منزلوں نے اس قدر کیا در بدر کب ہوا کوئی جدا بھول گئے اپنی ا پنی دوڑ ہے ساگر یہاں کون اٹھا کون گرا بھول گئے