29 نومبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2 دسمبر 1977ء کو یہ فیصلہ کیا تھا کہ 1978ء سے 29 نومبر کو فلسطینیوں سے یکجہتی کا عالمی دن منایا جائے ،تب سے آج تک یہ دن منایا جا رہا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف تقاریب اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان بھر میں سیاسی وسماجی تنظیموں کے زیر اہتمام مختلف تقاریب میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے غاصب اسرائیلی فوج کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کی نصرت کے لئے خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا پہ فلسطینی مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
محل و قوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پہ واقع ہے اس علاقے کو آجکل مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے ،شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے ،جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں جبکہ مغرب میں بحر متوسط کا طویل ساحل ہے ۔فلسطین کا رقبہ غزہ سمیت ستائیس ہزار کلومیٹر پہ مشتمل ہے جبکہ فلسطین کے پہاڑی سلسلوں میں ناہلس، کرمل،خلیل اور القدس کے پہاڑی علاقے مشہور ہیں ،واضع رہے کہ اسی خلیل پہاڑکے دامن میں خلیل شہر آباد ہے جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں مدفون ہیں اسکے علاوہ قدس کے پہاڑوں میں سب سے اونچا پہاڑ جبل طور ہے جس میں بیت المقدس کا علاقہ ہے مسجد اقصیٰ بھی اسی شہر کی زینت و رونق ہے۔
فلسطین وہ پاک زمین ہے جسے انبیاء کرام کے دفن ہونے کا شرف حاصل ہے اور جس میں برکت ہی برکت ہے ۔فلسطین کی زمین دو حوالے سے عالم اسلام اور مسلمانوں میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ آخری پیغمبر جنا ب محمد رسول اللہ ۖجب جبریل علیہ السلام کے ہمراہ براق پہ معراج جیسے پاک سفر پہ روانہ ہوئے تو جس دھرتی پہ رحمت دو عالم ۖنے انبیاء کرام کی امامت کراکے امام الانبیاء کا لقب پایا وہ یہی ہے اور دوسری اہم وجہ یہ کہ فلسطین ابتداء اسلام میں مسلمانوں کا قبلہ ء اول رہاہے جسکی بنا پہ رومیوں کے ساتھ معر کے انبیاکرمۖ کے دو رمیں ہی شروع ہو گئے تھے۔تاریخی ادوار میں فلسطین کنعانیوں کا مرکز رہا ہے کنعانیوں نے ہی القدس شہر کو آبادکیاتھا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کنعان کی طرف ہجرت فرمائی تھی ۔بہت پہلے ماضی میں فلسطین پہ فارس کی حکومت رہی جسے مسلم بادشاہ سکندر اعظم نے فارسیوں کے قبضہ سے آزاد کرایا۔
Solidarity with the Palestinian People
چھٹی صدی ہجری میں صلیبیوں نے بلاد اسلامیہ پر حملہ کیا جسکے نتیجے میں فلسطین پر صلیبی حکومت قائم کر لی گئی طاقت کے زور پر سترہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیالیکن صلیبیوں کی یہ حکومت زیادہ عرصہ نہ چل سکی مشہور مسلم مجاہد صلاح الدین ایوبی نے جلد ہی بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروایا۔ایک وقت آیا کہ مختلف قوتوں نے عالم اسلام کو سازشوں کا ہدف بنایااورفلسطین کی زمین برطانیہ کے قبضے میں آنے لگی تو چالاک یہودیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے 1839ء میں سب سے پہلا مغربی سفارتخانہ بیت المقدس میں کھولا جس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا سے یہودیوں کو بیت المقدس لایا گیابرطانوی حکومت نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کیلئے مکمل تعاون کیا ،مقامی لوگوں پہ بیشمار ظلم و ستم ڈھائے گئے یہودیوں کو آباد کرنے کی خاطر مسلمانوں کا جانی،مالی اور اقتصادی استحصال کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے ادوار کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔(دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعدنئے سرے سے جنم لیتے امریکی سامراج نے ایک بڑے اسٹیج کو اہم ضروت سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر1945ء میں مالٹا کے مقام پہ اقوام متحدہ کے خاکے کو عملی جامہ پہنایا) 1917ء سے لے کر 1947ء تک فلسطین برطانوی سامراج کے زیر سایہ رہا جبکہ دوسرا حصہ 1977ء تک ،جس میںفلسطین کی تقسیم اور جنگوں کا تذکرہ ہے ۔1977ء سے 1990ء کے تیسرے حصہ میں مسئلہ فلسطین کے بارے بین الاقوامی کانفرنس اور تحریک شامل ہیں ۔چوتھے دور میں 1990ء کا عشرہ ہے اور آخری پانچواں حصہ 2000ء سے 2015ء تک ہے۔
مسئلہ فلسطین اہم ترین ایشوز میں شامل ہے فلسطینیوں کا حق خودداری،قومی آزادی اور اس زمین ،گھر اور ملکیتوں پرانکی واپسی کا حق کہ جہاں سے صیہونی دہشت گردوں نے انہیں زبردستی بے دخل کر دیا تھا۔1948ء کواسرائیلی مملکت کا اعلان قیام ہواجسے چند ہی لمحوں میں امریکہ،روس اور یورپ نے تسلیم کر لیا،اسلامی ممالک میں سے صرف ترکی اور اس وقت کے شاہ ایران نے یہ ناجائز ریاست تسلیم کر کے اپنے فکری ضلالت پر مہر تصدیق ثبت کی۔20نومبر 1947ء میں ایک قرارداد منظور کی گئی جسکا موضوع فلسطین کی آئندہ حکومت رکھا گیا جس میں تقسیم فلسطین کا منصوبہ پیش کیا گیااور مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سوئیڈش ریڈکراس کے صدر برنارڈوٹ کو اقوام متحدہ کی جانب سے ثالث مقرر کیا گیاانہوں نے تقسیم فلسطین کے منصوبے میں Negev کوفلسطین کا حصہ قرار دینے کی بات کی تو اگلے ہی دن صیہونی دہشت گردوں نے اقوام متحدہ کے اس نمائندے کو قتل کر ڈالا۔ماضی سے ہی صہیونی حکومت فلسطینیوں پہ مظالم کرتی آرہی ہے جسے بیان کرنے کیلئے قلم ساتھ نہیں دیتی۔
جب 1967ء میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو عالمی صیہونی تنظیم نے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل تعمیر کرنے کیلئے خصوصی فنڈ کا اجراء کیااور مختصر مدت میں بیس کروڑ ڈالر جمع کئے گئے بیت المقدس پہ یہودی قبضہ کے ساتھ ہی مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔حرم شریف میں یہودیوں کے اجتماع ہونے لگے ۔مسجد اقصیٰ کے دروازے یہودیوں کیلئے کھلے ہیں وہ اپنے کتوں کو ساتھ لے کرمسجد اقصیٰ میں جوتوں سمیت گھومتے ہیں اسی طرح اگر فلسطینیوںپرکئے گئے اسرائیلی مظالم کی بات کی جائے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ہمیشہ نہتے فلسطینوں پہ ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے انکاجانی ،مالی ،اقتصادی استحصال کیا گیااسرائیلی یہودی انتہا پسندوں کی درندگی اس حد تک جا پہنچی کہ معصوم فلسطینیوںکو زندہ جلایا گیا۔
Israeli Soldiers in Palestine
حالیہ دنوں میں بھی صیہونی حکومت کے تشدد آمیزاقدامات میں اضافے پر سینکڑوں فلسطینی خاک و خون میں غلطاںاور فلسطینیوں کے درجنوں گھر تباہ ہوئے اسکے علاوہ سینکڑوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے زبردستی نکال دیا گیااسی طرح صیہونی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے قیدیوں پر تشدد کی حمایت پر مبنی قوانین منظور کئے جا چکے ہیںان قوانین کی آڑ میں سیاسی بنیادوں پر حراست میں لئے گئے قیدیوں سے بھی خطرناک جنگی مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
اسرائیل کی جیلوں میں مجموعی طور پر چھ ہزار فلسطینی قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں ان میں پانچ سو فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام کے جیلوں میں ڈالا گیا ہے اور انہیں بار بار انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل رکھا جاتا ہے ۔اسرائیلی جیلوں میں قید 1700 فلسطینی مریضوں میں سے 80نہایت مہلک مرض میں مبتلا ہیں ان میں سے بیشتر کینسر ،فالج اور جگر جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں صیہونی حراست میں لئے گئے قیدیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔تشدد کا بدترین سلسلہ نہ صرف عام بڑی عمر کے قیدیوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے بلکہ کم عمر بچوں کو خواتین کو بھی بھیانک اور خوفناک ہتھکنڈوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے 29 نومبر کو فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے موقع پہ اقوام متحدہ کو اسرائیل ، فلسطین مذاکرات کی بحالی پہ زوردینا چاہئیے اور ایسی قرارداد منظور کی جاوے جس میں فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کی طرف سے کئے جانے والے تشدد کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ظلم و ستم کی روک تھام کو یقینی بنائے جائے۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین امن مذاکرات 2014ء سے مکمل طور پہ ختم ہیں اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی کوششوں کے باوجودان کو بحال نہیں کرایا جا سکا۔سوئیڈن سمیت دیگر ممالک کی جانب سے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کئے جانے کے بعد اس 29نومبر جیسے اہم دن کی اہمیت مزیدبڑھ گئی ہے۔آج کے نازک دور میں امت مسلمہ کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اپنے آپس کے اختلافات کو بھلا کر ایک متحد قوم بن کر اپنے دشمن کا ڈٹ کا مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ وہ دن دور نہیں یہ مظالم ہمارے گھروں تک آ پہنچیں گے۔اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ اور اہل فلسطین کی حفاظت فرمائے اور لال مسجد سے لے کر مسجد اقصیٰ تک،اللہ کے گھروں کو ویران کرنے والوں کو نشان عبرت بنائے۔ آمین۔