تحریر: خواجہ وجاہت صدیقی معذوری کیا ہے؟ معذور کا مطلب نامکمل کا ہے،معاشرے کے وہ افراد جو ذہنی یا جسمانی طور پر نامکمل ہوں انہیں معذور کہا جاتا ہے،معذوری قدرتی امر ہے لیکن ہمارا معاشرہ ان لوگوں کو اپنی صفوں میں تسلیم کرنے سے انکاری ہے،یہی وجہ کہ یہ لوگ معاشرے سے کٹ کر رہ گئے ہیں اور گوشہ نشینی اختیار کرتے جا رہے ہیں،معاشرے میں ہماری توجہ کے مستحق یہ خصوصی افراد بے شمار مسائل کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں ،بعض اوقات گھرانے کا ایک یا ایک سے زائد افراد اور اکثر و بیشتر پورا گھرانہ معذور افراد پر مشتمل ہوتا ہے مگر ان کی معاشی زندگی کا پہیہ چلانے کا کوئی بھی مناسب ذریعہ نہیں ہوتا،بے شک رزق کی تقسیم اللہ تبارک تعالی کے اختیار میں ہے،
اس لیے ان گھرانوں کو دور دراز علاقوں،پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی رزق پہنچ جاتا ہے،معاشرے میں ان ہی خصوصی افراد کے بھی کچھ حقوق ہیں اور بحثیث انسان ہم پر بھی کچھ حقوق فرض ہیں ویسے تو ہم ان حقوق کو بجا لانے میں ہم کوتاہی برتتے چلے آ رہے ہیں،ایک عام انسان کی نسبت خصوصی افراد میں حساسیت کا عنصر کافی زیادہ ہوتا ہے،ایسا ہی ایک حساس طبع خصوصی افراد میں سے صدیق احمد بھی ہے جس نے اپنے جذبوں کو سچائی کے عمل تعبیر بخشی اور ایک روشن مثال قائم کی،توجہ کے مستحق خصوصی افراد کے دکھ سکھ کو سانجھے بنانے والے صدیق احمد وہ بہادر انسان ہیں جنہوں نے معذور افراد کی فلاح کی خاطر اپنی زندگی قربان کر کے انہیں معاشرے میں ان کا جائز مقام دلوانے کیلئے اکیلے سفر کا آغاز کیا تھا مگر آج ان کا کاروان بڑھتا ہی جا رہا ہے
Secondary School
صدیق احمد سے میری ملاقات احساس ڈس ایبلڈ پیپل آرگنائزیشن کے دفتر اچھڑیاں میں ہوئی، صدیق احمد نے دوران ملاقات میرے پوچھنے پر اپنا احوال بتایا کہ جب وہ سیکنڈری سکول کی تعلیم کیلئے گائوں سے باہر قدم رکھتے ،قریبی شہر کے ہائی سکول تک جانے کیلئے انہیںروزانہ سڑک کنارے دیر تک انتظار کرنا پڑتا اور انہیں گاڑی میں مناسب جگہ تلاش کرنا پڑتی ،روزانہ لوگوں کے دھکے اور گاڑی والوں کے تلخ اور ہتک آمیز جملے کھاناپڑتے اور انہیں یہ اکسانے پر مجبور کرتے کہ یہ معاشرہ معذور افراد کا دشمن ہے ،صدیق احمد کے مطابق اتنا کچھ سہنے کے باوجود بھی ا نہوں نے اپنی معذوری کو کبھی بھی اپنی منزل کی رکاوٹ نہیں بننے دیا بلکہ انہوںنے اس وقت ہی یہ عہد کر لیا تھا کہ وہ ایسا ضرور کچھ کریں گے جس سے معاشرے کے ان خصوصی افراد کی دلجوئی ہو سکے گی،صدیق احمد نے بتایا کہ وہ بذات خود ہر قسم کے حالات کو نہ صرف برداشت کرتے رہے بلکہ معاشرے میں بیداری کیلئے بھی اپنے تئیں کوششیں کرتے رہے ،صدیق احمد کے مطابق اس سلسلے میں ان کے جذبوں کی قدر ان کے اساتذہ اور ان کے والدین نے کی اور ان کی ہمت ٹوٹنے نہیں دی
بلکہ اساتذہ اور والدین کی تھپکیوں اور حوصلہ افزائی نے انہیں یہاں تک پہنچایا،صدیق احمد اپنی بیتی کہانی میں مزید بتاتے ہیں انہیں بھی اعلیٰ تعلیم کی جستجو تھی اور اسی جستجو نے ان کے من کو جگائے رکھا اور یہ جذبہ مزید پروآن چڑھتا گیا،صدیق احمد اپنے والدین اور اساتذہ کی کہی ہوئی باتوں اور نصیحتوں کو اپنے لیے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے اساتذہ اور والدین نے ہمیشہ انہیں یہ سبق سکھایا کہ اصل انسان محض5/6فٹ کا صحت مند انسان نہیں ہوتا بلکہ اصل انسان وہ ہوتا ہے جس کے پاس علم اور کردار ہوتا ہے،انہیں یہ بتلایا گیا کہ میں عظیم انسان بن سکتا ہوں اگر میں اپنے تعلیمی مقاصد کو سنجیدگی سے پورا کروں اور اپنی معذوری کو اپنی منزل کی رکاوٹ نہ بننے دوں ،وہ کہتے ہیں کہ اس میدان خاردار میں انہیں مشکلات بھی پیش آئیں مگر انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بجائے مقابلے کی ٹھانی اور اپنے جیسے لوگوں کی خدمت کیلئے خود کو پیش کیا
2005 Earthquake
اور اس کارواں میں اپنے ساتھ ان درد دل رکھنے والوں کو بھی شامل کیا جو ان کے جذبوں کے معترف تھے،صدیق احمد بیان کرتے ہیں کہ بے لوث محبت اور جدوجہد کی بدولت لوگ ان کے قافلے میں شامل ہونے لگے اور یوں،،میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا،،اپنی ابتدائی کوششوں کے بارے میں صدیق احمد کا کہنا کچھ یوں تھا کہ وہ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد خیموں میں پڑے معصوم بچوں کی چیخ و پکار اور آہ و فریاد کو وہ برداشت نہ کر سکے اور ان ہی فریادوں سے ان کا دل دہل کر گیا،زلزلے کے تین گھنٹوں بعد انہوں نے گائوں کی عورتوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو کسمپرسی کی حالت میں بیابانوں، میدانوںاور دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے
مائیں نڈھال تھیں اور جوان بے بس ،،یہی وہ منظر اور حالات تھے جس نے انہیں احساس بخشا اور وہ ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے،صدیق احمد کہتے ہیں کہ وہ آفٹر شاکس کی پرواہ کیے بغیر تباہ حال گائوں کی گلیوں میں گھس گئے ،ان کے گائوں کے بڑے بزرگوں کی جانب سے کی گئی انتباہ ان کے قدم روک رہی تھی مگر انہوں نے کسی بھی خطرے کو خاطر میں نہ لایا اور وہ اپنے گائوں کی جانب قدم بڑھاتے گئے ،ان کی دیکھا دیکھی گائوں کے دیگر افراد بھی ان کے ساتھ آکھڑے ہوئے اور ان کے جذبے نے گائوں والوں کی ہمت باندھی اور گائوں کی گلیوں میں ڈھیر ملبہ اٹھایا،راستوں کو رکاوٹوں سے آزاد کیا اور مساجد تک رسائی کو ممکن بنایا ،مختلف NGO,sسے فرسٹ ایڈ کا سامان اور دوائیں لیکر فری میڈیکل ڈسپنسری قائم اور ڈاکٹر محمد الیاس قریشی کی خدمات حاصل کیں جنہوں رضاکارانہ طور پر پہلی اینٹ رکھی،صدیق احمد کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر ان کا مقصد معذور افراد کی خدمت تھا
Encourage
اس لیے وہ ممتاز عالم دین حضرت مولانا غلام نبی صاحب سے رہنمائی کیلئے خواستگار ہوئے ،جنہوں نے ان کے پلان کے اندر مناسب ترامیم کیساتھ اس کی منظوری بخشی ،نوجوان العمرصدیق احمد کہتے ہیں گو کہ وہ فیلڈ ورک سے نا آشنا تھے سو انہوں نے اس موقع پر کام کرنے والی دیگر سماجی تنظیموں سے رہنمائی لینے کیلئے اپنی رسائی ممکن بنانے کی کوشش کی ،ان کا کہنا ہے کہ ایک سماجی تنظیم کے بانی صاحبزادہ جواد سے ملاقات کا موقع ملا اور انہوں نے ان کی بات توجہ سے سنی اور ان کی حوصلہ افزائی کی،صاحبزادہ جواد نے ان کے پلان کو قابل عمل قرار دیکر کام شروع کرنے کی تلقین کی ،اس طرح ان کا پلان کاغذ کے پلندوں سے نکل کر فیلڈ ورک تک آ گیا اور یوں انہوں نے معذور افراد کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی غیر سیاسی و غیر سرکاری تنظیم (احساس ڈس ایبلڈ پیپل آرگنائزیشن) کی بنیاد2005 میں رکھی
،گزشتہ دس سالوں سے احساس ڈس ایبلڈ پیپل آرگنائزیشن اپنے اہداف و منزل کی جانب گامزن ہے ،صدیق احمد کی باتیں میں پورے انہماک سے سنتا رہا اور مجھے دل ہی دل میں ان کی کوششوں اور ان کے کردار پر فخر ہوتا گیا ،دوران گفتگو ایسی شخصیات بھی زیر بحث آئیں جوخصوصی افراد سے متعلق مثبت اور بلند پایہ خیالات کی حامل تھیں،ان ہی میں اس کارخیر کا حصہ چئیرمین بورڈ آف ٹریٹس غلام نبی ہیں جن کے نیک جذبات قابل فخر ہیں،غلام نبی صاحب اپنے خیالات کیساتھ یوں رقم طراز ہوتے ہیں کہ احساس ڈس ایبلڈ پیپل آرگنائزیشن کا تعلق معاشرے کے ان بے ضرر اور معصوم لوگوں سے ہے جن کو معذور کہہ کر معاشرے نے انہیں الگ تھلگ کر دیا یا شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے افراد خواہشات اورجذبات نہیں رکھتے یا لوگ اُن کی صلاحیتوں کو تسلیم نہیں کرتے،ان کو بے وقعت سمجھا جاتا ہے ،حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ یہ لوگ ذرا سی توجہ کے مستحق ہیں اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
قارئین !دراصل صدیق احمد جیسے کردار ہی وہ مسیحا ہیں جو معاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کے باوجود اپنے جذبوں اور حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیتے، چٹان کی طرح مضبوط اعصاب کے مالک صدیق احمد یقیناً ہمارے معاشرے کے وہ ہیرو ہیں جنہوں نے اخلاص اور صدق دل سے وہ کچھ کر دکھایا جو کہ شاید کسی اور کے بس یا نصیب میں نہیں تھا،ہم بھی صدیق احمد کے اس کارخیر کا حصہ بن سکتے ہیں،اس کیلئے ضروری نہیں کہ صدیق احمد کی احساس ڈس ایبلڈ پیپل آرگنائزیشن کو نقدی ہی کی صورت میں کچھ دیا جائے بلکہ محبت کے دو بول اور اپنی مصروف ترین زندگی میں چند لمحات بھی ان ہی خصوصی افراد کو بخش دیے جائیں اور ان کی دکھ سکھ میں شامل ہو کر ان کی ہمت بندھائی جائے تو شاید یہی ہماری زندگی کی زکوة کا حصہ بن جائے،اللہ تعالیٰ صدیق احمد اور ان کے کارواں کے ہر فرد کو قدم قدم کامیابی نصیب فرمائے اور رب تعالیٰ انہیں ان کے جذبوں پر صادق رکھے آمین ثم آمین، ،مخیر حضرات صدیق احمد سے ان کے رابطہ نمبر 0344-8112255 پررابطہ کریں