بھٹ شاہ ( قاسم حسین ) سندھ ،پنجاب ہند اور ڈینمارک سمیت دنیا سے آنے والے دانشوروں ، مصنفین ، محققین اور لطیف شناس شخصیات نے حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی کو دنیا کیلئے امن و سلامتی کے پیغام کو عام کرنے والے محسن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی شاعری ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے دنیا سے نفرت سمیت منفی رجحانات کا خاتمہ لاکر انسانوں میں صبر و تحمل کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے جبکہ آج کے اس دور میں جہاں ہر طرف دہشتگردی کی لہر چھانئی ہوئی ہے جس کے تمام مذاہب اور لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں جسے شاہ صاحب نے 250 سال قبل دیے گئے پیغام کو عام کرتے ہوئے صوفی ازم کی پرچار سے ہی ختم کی جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے 272 ویں عرس مبارک کے موقع پر باتیں کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر الانا نے کہا کہ پہلے لطیف سرکار صرف بھٹ میں تھے مگر اس وقت شاہ سائیں پوری دنیا میں چھایا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شاہ سائیں کے کلام کو محفوظ بنانے اور اسے مختلف زبانوں میں روشناس کرانے کیلئے کراچی یونیورسٹی میں لطیف چیئر قائم کی گئی ہے جسے 65لاکھ روپے گرانٹ مل رہی ہے۔
انہوں نے لطیف چیئر کی جانب سے انسائیکلوپیڈیا آف شاہ لطیف شایع کرایا گیا ہے جوکہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ اس موقع پر الانا صاحب نے کہا کہ سندھ کو ختم ہونے کی باتیں بے مطلب ہیں کیونکہ وہ شاہ سائیں کی زبان ہے جو کبھی بھی نہیں ہو سکتی ۔ اس موقع پر بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے شاہ سائیں کے گدی نشین سید وقار حسین شاہ لطیفی نے کہا کہ محکمہ ثقافت کی جانب سے عالمی ادبی کانفرنس منعقد کرانا قابل تعریف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شاہ سائیں کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کرنے کیلئے محکمہ ثقافت اور ادبا کا اہم کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے گدی نشین کے انتقال پر سندھ اسمبلی میں ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا جس پر انہیں بہت افسوس ہے کیونکہ لطیف سرکار کو حکومت اپنا سمجھتی ہے مگر انکے گدی نشین کیلئے کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادبی کانفرنس کا مقصد شاہ صاحب کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لنڈن میں شاہ صاحب کے کلام پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس بھی ہو چکی ہے جبکہ مصر میں بھی ایسی ہی ایک کانفرنس منعقد ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کے اولیاء اکرام کا پیغام یہ ہی ہے کہ معاشرے میں امن و شانتی قائم کی جائے ۔ انسان کا انسان ذات سے پیار کرنا چاہیے اور امن سے رہنا چاہیے اور انسان بن کر سوچنا چاہیے کیونکہ شاہ سائیں نے اپنے پیغام میں انسان ذات کو ہر مذہب سے بالاتر رکھا ہے۔
انہوں نے صوفی ازم کی تبلیغ کی ہے اور سب سے بڑا مذہب انسان ذات سے محبت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ صاحب کے آثار وں ، اوطاروں ، ماگ اور مقاموں کو محفوظ بنانے کیلئے مناسب اقدام کیے جائیں ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شاہ صاحب اور مولانا رومی کے کلام کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر مذہب شاہ صاحب کو اپنا سمجھتا ہے جبکہ یہاں بھارت کے بعد بڑا گردوارا تعمیر کیا گیا ہے جسے شاہ صاحب کے نام سے منصوب کیا گیا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے آئے ہوئے لطیف شناس اور 30کتابوں کے مصنف ڈاکٹر جیٹھو لعلوانی کہا کہ بھارت میں رہنے والے سندھی شاہ سائیں کے کلام کو پڑھ کر اس پر مقالہ اور کتابیں لکھ رہے ہیں اور کئی کتاب اس وقت تک لکھ چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں رہنے والے سندھی کبھی بھی شاہ صاحب کو نہیں بھول سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی مختلف زبانوں میں شاہ سائیں کے کلام کو متعارف کرایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شاہ سائیں سندھ کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے شاعر ہیں اور انکی شاعری لوگوں کے دل میں بستی ہے۔
اس موقع پر ڈینمارک سے آنے والے ڈینش یونیورسٹی کی صدف مرزا نے کہا کہ شاہ سائیں کے کلام کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے سندھی زبان کی تربیت لی جائے تاکہ شاہ سائیں کی شاعری کو پڑھ کر اس سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ سائیں کا رسالہ اور رومی کی شاعری عالمی امن کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ سائیں کا پیغام انسانی اور جاگرافی حدود سے آزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لاشیں گرانے والے اور اٹھانے والے کھڑے ہیں اس وقت ضرورت ہے شاہ سائیں کے کلام کو پڑھنے کی۔
انہوں نے کہا کہ شاھ سائیں نے ہم خواتین کو اپنے کلام میں حد سے بڑھ کر پوری دنیا کو خواتین کا حترام کرنے کا درس دیا ہے جبکہ شاہ سائیں نے اپنے کلام میں نوری ، مارئی ، سسئی اور سورٹھ کو سورمی طور پر پیش کیا ہے اور امید ہے کہ آئندہ سال بھٹ شاہ میں ادبی کانفرنس کے دوران انکی رونمائی کی جائیگی ۔ اس موقع پر اپنے مقالے پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر نواز علی شوق نے کہا کہ یہ بڑا المیہ ہے کہ ہمارے نامور ادبا کے رسالے شایع ہونا بند ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں محمد عثمان ڈیپلائی اور مرزا قلیچ بیگ سمیت دیگر ادبا کے رسالے شایع ہوتے تھے جس سے نئی نسل کو جذبہ اور رہنمائی حاصل ہوتی تھی۔
اس موقع پر ڈاکٹر انور علی فگار ھکڑو نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی اپنے ھمگیر فکر اور با کمال اظہار کی وجہ سے بین الاقوامی شاعری میں بہت نمایاں اور منفرد مقام حاصل کر کے مفکروں اور نقاد کو متوجہ کر کے نئے نتائج اور حاصلات کی جانب راغب کرتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے مقالوں میں شاہ سائیں کے سروں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اس موقع پر بہاول یونیورسٹی پنجاب کے سرائیکی شعبے کے چیئر مین ڈاکٹر جاوید علی چانڈیو نے کہا کہ تحقیق کا مقصد صرف یہ نہیں کہ فقط یہاں آکر اور اپنے مقالے پڑھ کر واپس چلا جانا۔
انہوں نے لطیف کے عاشقوں کو گذارش کی کہ وہ شاہ سائیں کی شاعری کے مقالے لکھنے کے بجائے شاہ سائیں کی شاعری کی تخلیقی اور تحریری پہلو کو فروغ دلائیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دنیا کے مختلف اولیاؤں اور مفکروں کو پڑھا ہے مولانا رومی ، بابا فرید، فردوسی ، بلھے شاہ ، بھگت کبیر سمیت دیگر عظیم مفکروں کے کلام کو پڑھا مگر شاہ سائیں کو پڑھنا ،ان کی شاعری ، اور انکے پیغام کو بھلا نہیں سکا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ اپنے ہر سر میں انسان کی بھلائی اور ہر ایک لفظ سے انصاف کرنا شاہ سائیں کی شاعری میں ملتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شاہ کا رسالہ پڑھنے والے وہ اجذبہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں آگے پڑھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ لطیف وہ ہے جوکہ دوسروں کی آواز سنتی اور سناتی ہے۔