تحریر: نعیم الرحمان شائق نوجوان کی ساری تعلیم پاکستان کی تھی۔ اس وقت بھی وہ پاکستان کی ایک اعلا درس گاہ میں زیر تعلیم تھا۔ وہ قانون دان بننا چاہتا تھا۔ اس لیے وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ اعلا تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ کبھی ملک سے باہر نہیں گیا تھا۔ ہمیشہ یہیں رہا۔ یہیں کی چیزیں کھائیں۔ یہیں کا پانی پیا۔ یہیں پلا بڑھا۔اس کے آباء و اجداد پچھلے کئی سو سالوں سے پاکستان کی سرزمین پر رہ رہے تھے۔ کتنے سو سالوں سے ؟ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا تو میرے پاس کیا ہو گا۔
یعنی کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس کے باپ دادا ہجرت کرکے پاکستان نہیں آئے تھے۔ اس کے سارے دوست بھی یہیں کے تھے ۔ ہو سکتا ہے ، کبھی کبھا ر اسے انڈیا اور دیگر ملکوں کے لوگ انٹرنیٹ پر مل جاتے ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا تعلق کبھی بھی انڈیا یا کسی ملک سے نہیں رہا۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نوجوان سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد پاکستانی تھا۔
India
مگر ان تمام باتوں کے باوجود اس کی سوچ پاکستانی نہیں تھی ۔ گویا اس کا جسم پاکستانی تھا ۔ مگر دل اور دماغ ہندوستانی تھا ۔اس کا جسم یہاں رہتا تھا ، مگر دل اور دماغ انڈیا میں رہتےتھے۔ وہ اپنی نشستوں میں دوستوں کے سامنے بھارت کی وکالت کرتا تھا ۔ اس کے سارے دلائل پڑوسی ملک کے لیے ہوتے تھے ۔ پاکستان کے حق میں وہ کبھی نہیں بولتا تھا ۔ اسے یہاں کا نظام ، یہاں کے لوگ ، یہاں کی فضا ، یہاں کی آب و ہوا ، یہاں کی تعلیم ، یہاں کے افکا ر ، یہاں کے ادیب ، یہاں کے دانشور ، یہاں کے علماء اور یہاں تک کہ یہاں کا مذہب بھی عجیب اور مضحکہ خیز لگتے تھے ۔اسے یہاں کی ہر چیز سے نفرت تھی اور بھارت کی ہر شے سے محبت ۔یہ الگ بات تھی کہ اسے دن میں کئی کام پاکستانی نظام کے تحت کرنے پڑتے تھے ۔ کیوں کہ اس کی فطرت میں بزدلی تھی ۔ وہ کم زور دل کا مالک تھا۔
وہ ڈرتا تھا کہ ا گر وہ کوئی کام پاکستان کے قانون اور نظام کے خلاف کرے گا تو اسے جیل کی ہوا کھانی پڑے گی ۔اس لیے جب شہر میں ڈبل سواری پر پابندی لگتی تو وہ خاصا محتاط ہو جاتا ۔ جب ڈبل سواری سے پابندی ہٹ جاتی تو وہ ڈر کے مارے تین دن تک کسی کو اپنے موٹر سائیکل پر سوار نہیں کرتا تھا ۔وہ یاروں دوستوں کی محفلوں میں پاکستان کے نظام ِ تعلیم پر کھوکھلی تنقید کرتا تھا ۔ مگر اس کی ساری تعلیمی ڈگریاں پاکستانی تھیں ۔ اسے یہاں کے علماء سے نفرت تھی ، مگر جب اس کے دادا کاانتقال ہوا تو وہ بھاگ کر محلے کی مسجد کے امام صاحب کے پاس گیا تھا ،اور ان سے نمازِ جنازہ پڑھانے کی درخواست کی تھی۔
Hate
اس کے دوستوں کو اس وقت بہت غصہ آتا تھا ، جب وہ کشمیر کے ضمن میں پاکستانی موقف کی کھل کر مخالفت کرتا تھا او ر اس سلسلے میں بھارت کے موقف کی حمایت کرتا تھا ۔ اس کے دوستوں کا اس وقت خون کھول اٹھتا تھا ، جب وہ بلوچستان کے پہاڑوں اور سندھ کے گوٹھوں میں پھیلی قوم پرستی کے حق میں دلیلیں دیتا تھا ۔ اس کے یار دوست اس وقت اس سے متنفر ہو جاتے تھے ، جب وہ پاکستان کے آئین سے اسلامی شقوں کو ختم کرنے کی بات کرتا تھا ۔اس کے دوست اس وقت اسے بالکل پسند نہیں کرتے تھے ، جب وہ بھارت کے ہر اچھے ، برے واقعے کی حمایت کرتا تھا۔
اس کے دوست اس کی پاکستان کے خلاف نفرت اورتضحیک پر مبنی سوچ کے سلسلے میں خاصے پریشان تھے ۔ وہ یہ جاننا چاہتےتھے کہ ان کی سوچ اور اس کی سوچ میں اتنا فرق کیوں ہے ؟ وہ اس بات کا کھوج لگانا چاہتے تھے کہ ان کا یہ دوست اس طرح کیوں ہے ؟اسے کیوں یہاں کی ہر شے سے نفرت ہے ؟ کس چیز نے اس کی رگوں میں وطن سے نفرت بھر دی ہے ؟ وہ پڑوسی ملک کی اتنی وکالت کیوں کرتا ہے ؟ وہاں کی ہر بری شے کو اچھا اور یہاں کی ہر اچھی شے کو بر ا کیوں کہتا ہے؟
اب انھوں نے کھوج لگانا شروع کیا ۔ بالآخر ایک دن وہ اپنے مطوبہ ہدف تک پہنچ گئے ۔ انھوں نے وہ راز پالیا ، جن کا ان کو کئی سالوں سے انتظار تھا ۔ ان کو ان سوالات کے جوابات مل گئے ، جن کا ان کو شدت سے انتظار تھا ۔ انھیں معلوم ہوا کہ ان کے اس دوست نے جس اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ، وہاں کا نصاب بھارتی تھا ۔ وہاں کوئی غیرملکی این جی او متحرک تھی ۔ جس نے وہاں سے پاکستانی نصاب کو بے دخل کردیا تھا ۔ اس کی جگہ بھارتی نصاب رائج کردیا گیا تھا ۔ یعنی اس نے پاکستان میں رہ کر بھارتی نصاب پر اپنی تعلیمی بنیاد رکھی تھی ۔ وہیں سے اس کی سوچ تبدیل ہوئی تھی ۔ایسی تبدیل ہوئی کہ اتنا کچھ پڑھنے کے بوجود بھی وہ اپنے ابتدائی خیالات سے پیچھا نہ چھڑا سکا۔
Books
آخر میں ایک خبر پڑھیے ۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں بھارتی کتابیں پڑھائے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔ کتابیں غیر ملکی این جی اوز کی جانب سے تعلیمی اداروں میں مفت تقسیم ہوئی ہیں ۔ غیر ملکی این جی او سے معاہدے پر صوبائی سیکریٹری تعلیم کے دست خط بھی موجود ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ کتابیں غیر اخلاقی مواد پر مشتمل ہیں ۔ ان کتابوں میں شامل الفاظ کے معانی سندھی زبان میں غیر اخلاقی اور نا زیبا ہیں ۔اسی پر اکتفا ہے۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
فیس بک : fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq ای میل : shaaiq89@gmail.com