تحریر : علی رضا میں اکثر سوچتا ہوں کہ حکومت افراد کا نام ہے یا نظام کا؟ پھر خود ہی جواب میرے ذہن میں دستک دیتا ہے کہ افراد کا نام ہے کیونکہ کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تب سے چار بار ایوان بالا کو بدلتا دیکھ چکا ہوں مگر بڑے افسوس اور دکھ سے یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ جب بھی کوئی حکومت آئی صرف چہرے بدلتے مگر ملکی پالیسیاں وہی غریب کش ہی رہیں۔
ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب کے کام جہاں قابلِ ستائش ہیں وہاں بہت سے اہم ملکی امور کو نظر انداز بھی کر نابھی ان کا وتیرا ہے جیسے کہ آج کل وزیر اعلیٰ صاحب تعلیم و صحت پر بہت زور دیتے نظر آ رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے یہ تمام اموربدونِ پالیسی اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے سر انجام دیئے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں چند ماہ قبل وزیر اعلیٰ صاحب نے پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن(Punjab HealthCare Commision)کے نام سے ایک ڈیپارٹمنٹ تشکیل دیا جس کا مقصد اتائیوں اور اَن پڑھ(Non Educated)ڈاکٹروں کا خاتمہ ہے جو کچھ روپوں میں اس بیوقوف غریب عوام کا علاج چند مخصوص گولیوں سے کرتے ہیںجبکہ غریب عوام ایسے خدا ترس اور سستے ڈاکٹروں کومسیحہ سمجھتی ہے اور حکومت کی اس مخلصانہ پالیسی سے نا خوش نظر آتی ہے کیونکہ حکومت نے غریب عوام کے لیے جو بنیادی صحت مراکز اور رورل ہیلتھ سنٹر(Roral Health Center) بنا رکھے ہیں جن پر بقول حکومت کروڑوں روپے سالانہ خرچہ کرتی ہے اُن کی بدحالی اور خستہ حالی کسی سے ڈکھی چھپی نہیں۔
Poor People
جبکہ ہمارے ملک کا امیر طبقہ اُن مراکز میں جانے کو اپنی توہین سمجھتا ہے مگر غریب طبقے کو وہاں کے MBBSڈاکٹرزچیک کرنا پسند نہیں کرتے تو اَب غریب عوام بیچاری کہاں جائے؟کچھ روز قبل میں خود اپنے علاقے کے ایک بنیادی مرکز صحت میں موجود تھا اور میرے سامنے MBBS میڈیکل آفیسر کرسی پر تشریف فرما تھے ایک بیمار دیہاتی غریب کو قسمت وہاں لے آئی جب وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا تو ڈاکٹر صاحب نے اُسے ایسی توہین آمیز نظروں سے دیکھا کہ وہ مریض اپنی بیماری ہی بھول گیا۔
شاید کہ ڈاکٹر کو بغیر فیس کے اسے چیک کرنا اچھا نہیں لگا اورڈاکٹر صاحب نے مریض کے اصرار کے باوجود نبض چیک کرنا بھی گوارہ نہ کیا اورمعمول کے مطابق چائے پیتے ہوئے دو گولیاں لکھ دیں وہ دو گولیاں بھی جب پتا کی گئیںتوہسپتال میں موجود نہ تھیںاور سرکاری عملہ نے مریض کو کہہ دیا کہ باہرمیڈیکل سٹور سے خرید لو۔دوسری طرف پرائیوٹ ہسپتالوں کا تو پوچھنا ہی کیا جن کی چیک اپ پرچی فیس ہی غریب کی دسترس سے باہر ہے۔
ایک طرف حکومت نے اتائیوں کے خاتمے کے لیے ہیلتھ کیئر کمیشن بنا دیا دوسری طرف ہیلتھ کئیر کمیشن نے NCH اور NCTسے کوالیفائیڈ لوگوں کے لیے کلینک بنانے کے بارے میں ایسی شرائط رکھی ہیں کہ وہ بھی ہیلتھ کئیر کمیشن کے میعار کے مطابق کلینک بنانے سے قاصر ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے اتائیوں کے خاتمے کے لیے ہیلتھ کئیر کمیشن بنا دیامگر کیا سرکاری ہسپتالوں میں بھی سہولت دینے اور چیک اینڈ بیلنس کے لیے کوئی ٹیم تشکیل دی ہے؟سرکاری ہسپتالوں سے جو ادویات غائب ہو جاتی ہیںاور کام چور عملہ کوٹھیک کرنے کے لیے بھی کوئی ٹیم تشکیل دی ہے؟سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا غریب مریضوں کے ساتھ جو تلخ روایہ ہے اُسے درست کرنے کے لیے کوئی ٹیم تشکیل دی ہے؟اس کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔میں سمجھتا ہوں ایسے نازک حالات میں اتائی حضرات غریب عوام کے سب سے بڑے محسن اور خیر خواہ ہیں۔
اَب حکومت سے مئودبانہ اپیل ہے کہ اتائیوں کے خاتمے سے پہلے غریب عوام پر ترس کھائے اور روز بروز نئی نئی پالیسیاں بنانے کی بجائے عملی کام کرے اور سینکڑوں سرکاری ہسپتالوں کی ناقص اورظالمانہ کارکردگی کی طرف بھی توجہ کرے تاکہ غریب عوام بھی اپنے آپ کو اس ملک کا شہری اور حصہ سمجھنے لگیں۔