تحریر: محمد عتیق الرحمن، فیصل آباد دنیا بھر میں اپنے ملک کو تقسیم ہونے سے بچانے والوں کو محب وطن اور تمغوں سے نوازا جانا ایک عام بات ہے لیکن بنگلہ دیش وہ واحد ملک ہے جس میں جغرافیائی سرحدوں کو تبدیل ہونے سے بچانے والوں کو’’غدار‘‘ قرار دیاجاتا ہے اور ان کے خلاف جنگی ٹریبونل بناکر تختہ دار پر چڑھایا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد تشدد اور ریاستی قہر وجبر میں اس راستے پرچل رہی ہے جس پر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی گامزن ہے۔ جیسے بھارت میں اقلیتیوں کی بالعموم اور مسلمانوں کی بالخصوص زندگی اجیرن کی ہوئی ہے بالکل اسی طرح بنگلہ دیش پر 71ء کی جنگ کا بھوت سوار ہے۔
پاکستان سے محبت کرنے والوں کو حسینہ واجد کے انتقام کی بھینٹ چڑھایاجارہاہے ۔ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں 1971ء میں بھارتی سازش کے شکار بنگالیوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر اپنے وطن کا دفاع کیا تھا۔دنیا بھر کا قانون ہے کہ بیرونی جارحیت اور ملک کو تقسیم ہونے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تقسیم کرنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔ 2010ء سے بنگلہ دیش میں دو ٹریبونل کام کررہے ہیں ۔یہ ٹریبونل جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں لیکن ان کا مقصد صرف اور صرف سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ان لوگوں کو تختہ دار پر لٹکانا ہے جو پاکستان کے وفادار رہے اور غیروں کی سازشوں کا شکار ہونے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان کی تقسیم کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔
اب تک یہ ٹریبونل 18افراد کوجنگی جرائم میں مجرم قرار دے چکاہے جن میں 4افراد کو پھانسی دی جاچکی ہے ۔جن میں سے 3کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور ایک کا نیشنلسٹ پارٹی سے ہے۔ابھی حال ہی میں اسی ٹریبونل کے فیصلے پر مورخہ 22نومبر بروز اتوارکی صبح ایک بجے ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت جماعت اسلامی کے اعلیٰ رہنماعلی احسن محمد مجاہد اوراپوزیشن جماعت نیشنلسٹ پارٹی(BNP) کے رہنما صلاح الدین قادر چوہدری کو پھانسی دی گئی ہے ۔جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ بنگلہ دیشی حکومت پاکستان کے خلاف کس حد تک جارہی ہے۔
Mujahid-Saka
پنجاب یونیورسٹی کے ریکارڈ کے مطابق صلاح الدین قادر چودھری نے اگست 1971ء میں سیاسیات کے مضمون میں بی اے کی ڈگری حاصل کی جبکہ صلاح الدین قادر چودھری پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ تمام 4سے 13اپریل 1971ء کے واقعات سے متعلق ہیں۔ایسی ٹھوس زبانی ، واقعاتی اور دستاویزی شہادتیں موجود ہیں کہ صلاح الدین قادر چوہدری ان دنوں لاہور میں زیر تعلیم تھے۔جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ اس کے رہنماؤں کو ہلاک کرکے ملک میں سے ان کی جماعت کو ختم کیاجارہا ہے جبکہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے حکومت پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ ٹریبونل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہے ۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم بھی دوران حراست اللہ کوپیارے ہوگئے تھے ۔علی احسن مجاہد جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے جنرل سیکرٹری تھے اورقادرچوہدری ایک بااثر سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ چھ بار رکن پارلیمان بھی رہ چکے تھے۔
علی احسن مجاہد پر بنگلہ دیش کی ’’آزادی‘‘کی حمایت کرنے والے لوگوں کے قتل کا الزام تھا اور انہیں اغوا،قتل اور زناکاری سمیت 5الزامات میں مجرم ٹھہراتے ہوئے جولائی 2013ء میں پھانسی کی سزاسنائی گئی تھی ۔ قادر چوہدری پر قتل عام،آتش زدگی ،مذہب ا ور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو ہراساں کرنے اور ایذارسانی سمیت 23الزامات تھے جن میں 9میں انہیں مجرم ٹھہرایاگیا ۔دونوں رہنماؤں کو پھانسی دینے کے بعد ان کے جسدخاکی آبائی علاقوں میں بھیج دئیے گئے ۔علی احسن مجاہدکاجسدخاکی06:45پر فریدپور لایا گیا اور زبردستی صرف 40منٹ کے بعد 7:25پر صبح قبرستان میں دفن کردیاگیا ۔صلاح الدین قادر چوہدری کے جسد خاکی کو چٹاگانگ بھیجا گیاجہاں انہیں بھی اسی عجلت کے ساتھ دفن کردیا گیا۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے شہداء کی غائبانہ نمازجنازہ پورے ملک میں اداکی ۔بالخصوص ڈھاکہ میں ایک کثیر تعداد نے شہدا ء کی نمازجنازہ میں شرکت کی ۔علی احسن مجاہد 2001ء سے 2006ء تک رکن پارلیمان اور سوشل ویلفیئر وزارت کے وزیر رہ چکے تھے ۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی اُس وقت کی رپورٹ میں ’’علی احسن مجاہد اور امیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا مطیع الرحمن نظامی کو مثالی وزراء اور ان کی کارکردگی کو بہترین‘‘ قراردیا تھا۔
بنگلہ دیشی جنگی ٹریبونل کے مطابق علی احسن مجاہد دانش وروں اور ہندو اقلیت کے قتل میں ملوث تھے اور البدگروپ کے لئے کام کرتے تھے ۔البدگروپ پر الزام عاید کیا جاتا ہے کہ اس نے جنگ کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دیاتھا۔قادرچوہدری سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کی جماعت بی ۔این ۔پی کی طرف سے متعدد بار رکن اسمبلی بھی رہ چکے ہیں ۔انہوں نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا تھا ۔علی احسن مجاہد کے بیٹے علی احمد کا نیوز ایجنسی رائٹرز کو ای میل کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں انصاف فراہم نہیں کیا جارہا،ہمیں جان بوجھ کر ہراساں کیا جارہاہے اور ہم جبر کا شکار ہیں۔
Khaleda Zia
پاکستانی حکومت اورمذہبی و سیاسی رہنماؤں نے بنگلہ دیش میں دی جانے والی پھانسیوں کی شدید مذمت کی ہے اور اسے سیاسی انتقام اور حکومتی دہشت گردی کی بدترین مثال قرار دیا ہے۔ سینٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفرالحق نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی انتقام جس انداز لیا جا رہا ہے یہ ایک کھلی حکومتی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ اس دہشت گردی کے خلاف عالمی طاقتوں کو بھرپور مزاحمت کرنی چاہئے۔ یہ قتل کی واردات سنگین خونریزی کے واقعات کا جواز بن سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کے عوام کیلئے یوم سیاہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ 40 سال بعد ان قائدین پر کیوں مقدمہ چلایا گیا؟۔ ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستان اور پاک فوج کے جھنڈے اور نام و نظریئے کے ساتھ وفاداری کی۔
انہوں نے کہا کہ علی احسن مجاہد کو پھانسی سے قبل رحم کی اپیل کرنے کا کہا گیا مگر انہوں نے ظالم اور بھارت کی ایجنٹ حسینہ واجد کو رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔ (ق) لیگ کے صدر شجاعت حسین نے کہا کہ صلاح الدین قادر چوہدری اور علی احسن مجاہد کا واحد جرم پاکستان سے محبت ہے جس کی انہیں اتنی بڑی سزا دی گئی۔امیر جماعۃ الدعوۃپروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اس کا دہشت گردی اور تخریب کاری سے کوئی تعلق نہیں۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے قائدین کی پھانسیوں سے ایک بار پھر نظریہ پاکستان زندہ ہورہا ہے۔ پھانسیاں اور قیدوبند کی صعوبتیں حق کی آواز نہیں دبا سکتیں۔اس موقع پر بنگلہ دیش میں پھانسی دیئے جانے والے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے قائدین علی احسن محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر کی غائبانہ نمازجنازہ بھی ادا کی گئی۔
عمران خان کی طرف سے فوری طورپر بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو ای میل بھی ارسال کی گئی تھی۔ پھانسی کو رکوانے کی کوشش باور آور ثابت نہ ہو سکیں۔ ہنگامی رابطوں کے باوجود جماعت اسلامی کے متذکرہ رہنماؤں کو بنگلہ دیش میں پھانسی پرچڑھا دیا گیا۔اسحاق خاکوانی نے کہا کہ اس اہم معاملے میں حکومت پاکستان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی۔ پاکستان سے محبت کے جرم میں بنگلہ دیشی حکومت کے ہاتھوں پھانسی کی سزا پانے والے جماعت اسلامی کے رہنما علی حسن مجاہد اور بی این پی کے رہنما صلاح الدین قادر کی غائبانہ نماز جنازہ حافظ محمد ادریس نے مسجد شہداء کے باہرپڑھائی جس میں جماعت اسلامی‘ اسلامی جمعیت طلباء ‘ جمعیت طلباء عربیہ اور مختلف سماجی تنظیموں کے سینکڑوں کارکنوں نے شرکت کی۔
پاکستان کے ابھی تک سقوط ڈھاکہ والے زخم تازہ ہیں جن میں سے وقتا فوقتا خون رستا رہتاہے ۔یہ درد ہے ہی ایسا ،جیسے کسی انسان کے ایک بازو کو کاٹ دیاجائے ۔میں یہاں پر (بنگلہ دیش ) مشرقی پاکستان میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہندو سازشوں کا ذکرکرنا مناسب نہیں سمجھتاکیوں کہ ماضی کو یاد کرنا دکھی ہونے جیسا ہے ۔ورنہ قارئین کو بتانے کے لئے بہت کچھ ہے کہ کس طرح ہمارے بنگالی بھائیوں کے معصوم ذہنوں میں نظریہ پاکستان کے خلاف زہر ڈالا گیااور زہر ڈالنے والوں نے کون کون سے طریقے استعمال کئے۔ لیکن اس وقت سابقہ مشرقی پاکستان میں جن لوگوں نے ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے جنگ لڑی آج وہ بنگلہ دیش میں زیرعتاب ہیں کوئی ان کاپرسان حال نہیں ہے۔
آج جس طرح بنگلہ دیش میں قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں انہیں مناسب اور بھرپور انداز میں عالمی فورم پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ ،سلامتی کونسل اور ہیومین رائٹس تنظیموں کو ان بے گناہوں پر جو عدالتی انصاف کی آڑ میں ظلم وستم کا بازار گرم ہورہاہے اس کو روکنا ہوگا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد1974ء میں پاکستان ،بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ایک سہ ملکی معاہدہ طے پایا تھا جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ کسی بھی ملک میں جنگی امورومعاملات پر کسی بھی فردکے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا ۔اس معاہدے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا تھا۔معاہدے پر پاکستان کی طرف ذوالفقار علی بھٹو ،بنگلہ دیش کی جانب سے شیخ مجیب الرحمن اور بھارت کی طرف سے اندراگاندھی نے دستخط کئے تھے۔
اس معاہدے کی رو سے پاکستان خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا بلکہ اس معاملے میں پاکستان ایک بنیادی فریق ہے ۔ پاکستان نے اس معاملے کو پس پشت ڈال کر ذمہ داری سے فرارحاصل کی ہے۔کل کو اگر خدانخواستہ پاکستان میں اس طرح کے معاملات درپیش آتے ہیں تو کون سی مذہبی جماعت البدروالشمس کا کرداراداکرنے کو تیار ہوگی اورفوج کے شانہ بشانہ چلے گی ؟کیونکہ آج مذہبی جماعتیں بنگلہ دیش میں پاکستان کی خاطر پھانسی کو چومتے ہوؤں کو دیکھ رہی ہیں اور اس پر پاکستانی حکومت کا رویہ بھی آج کی نسل کی نظر میں ہے ۔ پاکستان کو عالمی عدالت میں اس مسئلے کو لے جانا چاہیئے اور حکومت پاکستان کو بنگلہ دیشی حکومت کو یہ باور کرانا چاہئے کہ اگر انتقامی کاروائیاں نہ رکیں توپاکستان بھی بنگلہ دیش کے بارے میں اپنی حکمت عملی تبدیل کریگا۔ اگر انہوں نے یہ ظلم جاری رکھا تو ان کاانجام بھی برا ہوگاکیونکہ تاریخ کاسبق یہی ہے کہ
ظلم پھرظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھرخون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تک