سوئی سدرن گیس کمپنی کے ملازمین کی بحالی کے فیصلے پرعمل نا ہو سکا

Badin

Badin

بدین (عمران عباس) پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے آرڈیننس کے ذریعے سوئی سدرن گیس کمپنی کے ملازمین کی بحالی کے بعد ان کی سینیارٹی، ترقی اور ان کی تنخواہوں میں اضافے پر سات سال گذرجانے کے باوجود بھی عمل نا ہو سکا۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے ملازمین کی بحالی کے فیصلے پر سات سال گذر جانے کے باوجود عمل نا ہوسکا اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تین ہزار سے زائد ملازمین کو سوئی سدرن گیس کمپنی سے برطرف کردیا تھا ان ملازمین کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بحال کرنے کے فیصلے کے باوجود پہلے مرحلے میں نواز شریف اور پھر جنرل پرویز مشرف نے عدالت کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھااور برطرف کیئے گئے ملازمین کو بحال نہیں کیا گیا، 2008میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے 2009میںایک صدارتی آرڈیننس جاری کرکے سوئی سدرن گیس کمپنی سمیت مختلف وفاقی اداروں سے برطرف کیئے 7ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمت پر پھر سے بحال کردیا گیا۔

اس کے علاوہ ان کی سینیارٹی اور 1997-98 سے ان کی تنخواہیں جاری کرنے اور ان کی ترقی کا بھی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا اور اس صدارتی آرڈیننس کو سینٹ اور قومی اسمیبلی سے بھی پاس کروا کر قانونی طور پر منظور کیا گیا تھا جس کے بعدسوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے تین ہزار ملازمین جن میں افسران اور دیگر عملہ شامل ہے جن کی بحالی کے آرڈر جاری کرکے ان کو سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میںتعینات کردیا گیا ، صدارتی آرڈیننس کو قانونی شکل ملنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویزن اسلام آباد کی جانب سے نوٹیفکیشن کے ذریعے جس میں سوئی سدرن گیس کمپنی کو بحال ہونے والے ملازمین کو کمپنی قانون کے مطابق سینیارٹی دیکر ان کو ترقیاں دینے ، کمپنی کے دیگر ملازمین کی طرح ان کی تنخواہیں بھی اتنی کرکے ان کی بقایاجات دینے کی لیئے پابند کیا گیا تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد کی تعصب پرست کامورا شاہی کی جانب سے سات سال گذرجانے کے باوجود بھی اس قانون پر عمل درآمد نا ہوسکی، بحال ہونے والے ملازمین کو پہلے جیسی تنخواہیں بھی نہیں دی جاتی نا ان کو سینیارٹی بنیادوں پر ترقی دی جاتی ہے اور ناہی ان کی بقایاجات دی جارہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہی ملازمین کو سرپلس پول میں رکھ کر ان ملازمین کی نا صرف سینیارٹی اور ترقیوں کو دبایا جارہا ہے بلکے وفاقی قدرتی وسائل کی وزارت اور محکمہ قدرتی وسائل کے سیکریٹری ، اوگرا چیرمین اور اسٹیبلشمنٹ ڈویزن کی جانب سے گروپ بندی قائم کرکے قومی اسیمبلی اور سینٹ سے قانونی شکل اختیار کرنے والے صدارتی آرڈیننس بل پر عمل کرنے کے بجائے ان بحال کیئے گئے ملازمین کی تنخواہیں فکس کردی گئی ہیںجو سوئی گیس کمپنی میں کام کرنے والے چپڑاسیوں سے بھی کم ہیں، اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان ملازمین کو کمپنی کے قانون کے مطابق کوئی بھی سہولیات میسر نہیں ہیںجو سہولیات دیگر ملازمین کو میسر ہیں،ضلع بدین سے بحال ہونے والے ملازمین نے اپنا نام ظاہرنا کرنے کے شرط بتایا کہ ہم کو برطرف کرنے کے بعد نواز اور مشرف دور میں غیر قانونی طور پر سوئی سدرن گیس کمپنی میں بڑی تعداد میں پنجاب اور خیبر پختون خواہ صوبوں کے لوگوں کو بھرتی کیا گیاجس کو قانو ن کی دھجیاں اڑا کر ان کو ایک سال کے دوران پانچ پانچ ترقیاں دیکر ان کو بڑے عہدوں پر فائز کردیا گیا ہے اور ان کے تنخواہوں میں بھی سو فیصد اضافہ کیا جاتاہے۔