تحریر: مسز جمشید خاکوانی میرے اباجی مرحوم خدا انہیں جنت نصیب کرے (آمین) بہت لبرل ذہن کے مالک تھے سخی اور نرم دل میں اکثر اپنے پر تجسس ذہن کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان سے سوال کیا کرتی میرے ایسے ہی کسی سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا پیاری بیٹی اللہ کی مشیت کے آگے کسی کی نہیں چلتی انسان صرف اتنا ہی سمجھ سکتا ہے جتنا اس کے سامنے ہوتا ہے اللہ کے کام اللہ ہی جانے اب یہی سوچو امام حسینکے کنبہ کی خواتین جن کو کبھی کسی نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا انہیں ننگے سر ننگے پائوں بازاروں میں پھرایا گیا۔
سر دربار یزیدوں کے سامنے پیش کیا گیا امام کا سر نیزے پر چڑھایا گیا اگر خدا چاہتا تو ان کے ساتھ ایسا کیسے ہو سکتا تھا لیکن اللہ کو انکی آزمائش مقصود تھی حالانکہ حضرت امام حسین ایک نگاہ اٹھاتے تو نہ جانے کیا ہو جاتا اگر آپ چاہتے آپ کا کنبہ بچ جاتا یزیدی لشکر تباہ ہو جاتا ،کوفہ و بصرہ میں آپ کا اقتدار ہوتا لیکن یہ سب مقام رضا کے منافی تھا وہ اس آزمائش میں پورا اترنا چاہتے تھے جو آزمائش ازل سے ان کے لیئے لکھ دی گئی تھی کہ وہ اپنے بچپن میں ہی کربلا کا نقشہ بنا کر دیکھا کرتے تھے۔
Muhammad PBUH
ایک بار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں نواسوں کو اٹھایا ہوا تھا آپ نے فرمایا مجھے اپنے یہ دونوں نواسے بہت محبوب ہیں پھر آپ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا میرا یہ نواسہ (امام حسن) زہر دے کر شہید کیا جائے گا اور یہ نواسہ (امام حسین)میدان کربلا میں شہادت سے سرفراز ہوگا ۔کیا اس کے بعد بھی کوئی ابہام رہ جاتا ہے ایسا سوال کرنے والوں کے لیے؟کہ انہوں نے وہی کیا جس کا حکم خدا کی طرف سے تھا ۔روایت کے مطابق جب سیدنا حسینابن علی اپنے جان نثاروں کے ساتھ میدان کربلا کی جانب روانہ ہوئے تو آپنے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی میں نے اپنے نانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے آپ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے۔
بحر حال میں یہ کام کروں گا چاہے مجھے نقصان ہو یا فائدہ پوچھنے والے نے پوچھا خواب کیا ہے ؟فرمایا ابھی تک کسی کو نہیں بتایا نہ بتائوں گا یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جا ملوں گا ۔شہیدان حق کی دنیا میں امام حسین ابن علی کا مقام بہت ہی بلند ہے۔
Allama Iqbal
کسی نے حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیا ،تو کوئی قید و بند کی سختیاں زندگی بھر جھیلتا رہا ،کوئی تنہا پھانسی پر لٹک گیا مگر حسین کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے آپنے اپنے گھرانے کا ایک ایک فرد اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوایا ،اپنے جگر گوشوں کو خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھا ،پیاسے اور بلکتے ہوئے بچوں کی صدائیں ان کی سمع سے ٹکرائیں مگر وہ صبر و ضبط کا پیکر ،استقلال کا ہمالیہ،جرات و استقامت کا کوہ گراں ،حق و صداقت کا علمبردار باطل کے آگے گردن جھکانے کو تیار نہ ہوا اس نے حق کے لیے جینے حق کے لیے مرنے کی تاریخ رقم کی۔
شاعر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ،غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین،ابتدا ہے اسماعیل حضرت امام حسین فرمایا کرتے تھے بدترین خصلت بادشاہوں کی یہ ہے کہ دشمنوں کے سامنے بزدلی،ضعیفوں کے ساتھ سختی،یا عطا اور بخشش کے معاملے میں بخل سے کام لیں ۔آپ نے فرمایا جب کوئی سوال کرنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کی آبرو باقی نہیں رہتی اس لیے اس کے سوال کو رد نہیں کرنا چاہیئے اور اس کا اکرام کیا جائے۔
امام عالی مقام کے ہر فرمان میں ایک پیغام ہے کہ سمجھنے والے اس کو سمجھا کریں کیا حسین کی قربانی کو ہم بھلا سکتے ہیں ؟ کچھ نا سمجھ سوال کرتے ہیں امام حسین کو کیا ضرورت تھی اپنے اہل و عیال کو لے کر چل پڑے جب کہ پ کو منع کیا گیا تھا وہ بھول جاتے ہیں کہ حسین نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی قربانی دے کر تا ابد باطل قوتوں کے لیے مثال قائم کی کہ حق کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔
نواسہ رسول نے اپنے ساتھیوں کی قربانی دینے تک اور شہید ہونے تک سینکڑوں یزیدیوں کو جہنم واصل کیا آپ پر اس وقت تک کوئی قابو نہ پاسکا کہ آپ تیروں اور نیزوں سے چھلنی ہوکر گھوڑے سے گر پڑے یزیدی اسی انتظار میں تھے اما عالی مقام اپنے عظیم مقصد میں کامیابی کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے ،سجدہ ریز حسین کی گردن پر تلوار چلی اور مشیت نے یہ مژدہ سنایا ،اے نفس مطمعنہ!اپنے رب کی طرف لوٹ اس طرح کہ تُو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔