ایڈز سے متعلق معاشرے میں رائج چند غلط تصورات

AIDS

AIDS

نیویارک (جیوڈیسک) معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی اور فحاشی نے ایڈز جیسی خطرناک بیماریوں کو جنم دیا جس سے ہر سال ہزاروں لوگ زندگی کی بازی ہار جاتی ہے اس لیے ضروی ہے کہ لوگ اس بیماری سے متعلق بنیادی معلومات سے آگاہ رہیں اور عام طور پر اس سے متعلق پائے جانے والے غلط تصورات کے باعث ہونے والے نقصان سے بچ سکیں۔

ایڈز سے اب تک 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے علاج میں بھی کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور عوام کو اس سے بچنے کے لیے پوری دنیا میں آگاہی کی مہم چلائی جارہی ہے۔ یہاں چند ایسے ہی غلط تصورات کو پیش کیا جا رہا ہے جن کو سامنے رکھ کر اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔

ایڈز کا فوری پتا چل جاتا ہے: بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایڈز کی بیماری کا فوری پتا چل جاتا ہے اور مریض کی نشان دہی ہوجاتی ہے لیکن یہ تصورغلط ہے کیونکہ عام طور پر کسی بھی شخص میں اس بیماری کا کئی سال تک پتا ہی نہیں چلتا اور اس کی کوئی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔

انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرکا کہنا ہے کہ بعض اوقات کوئی شخص 10 سال تک ایچ آئی وی مثبت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور اس کی خبر نہیں ہوتی تاہم اس کی صحت میں مسلسل خرابی پر فوری اس کا ٹیسٹ کرایا جانا چاہیے اور بالخصوص وہ افراد جو جنسی بے راہ روی میں ملوث ہوتے ہیں انہیں ہر کچھ عرصے میں اپنا ایچ آئی وی ٹیسٹ کرانا چاہیے۔

ایڈز کا پتا چلتے ہی علاج نہ کرایا جائے: عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ جیسے ہی اس مرض کی تشخیص ہوجائے ویسے ہی فوری طورپر اس کا علاج شروع کردیا جائے تاکہ مریض کے مزاحتمی نظام کو محفوظ بنایا جاسکے۔ ابتدائی طور پر اینٹی ریٹرو وائرل (اے آرٹی) تھراپی یعنی روزانہ لینا شروع کردی جائے تاکہ اس بیماری کو جسم میں پھیلنے سے روکا جا سکے جب کہ فوری علاج سے انسانی صحت پر ڈرامائی تبدیلی پیدا کرتا ہے اور آئندہ زندگی بہتر طور پر گزار سکتا ہے۔

اب ایڈز سے مزید پریشان نہ ہوں: بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایڈز کا چونکہ علاج آسانی سے ہوتا ہے اس لیے اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن ایسا سوچنا غلط ہے اسی لیے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ غلط سوچتے ہیں کہ ایڈز 10 سال پہلے مسئلہ تھا اب نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اب بھی ایڈز سے ہر سال 12 لاکھ لوگ موت کا شکار ہوجاتے ہیں جبک ہ یہ سن کر لوگوں کو حیرانی ہوگی کہ ہر سال 6 سو لوگ ایچ آئی وی سے متاثر ہوتے ہیں۔

ایڈز کا شکار حاملہ خاتون کا بچہ بھی ایڈز میں مبتلا ہوگا: ضروری نہیں کہ کسی ایچ آئی وی کا شکار حاملہ خاتون کا بچہ بھی ایڈز سے متاثر ہو اور بغیر علاج کے بھی بچے کے ایڈز سے متاثر ہونے کے صرف 25 سے 33 فیصد امکانات ہوتے ہیں تاہم اس خطرے کو پری ایکسپوزر پروفالیکسز جیسے علاج کو اختیار کرکے مزید بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

سینٹر فار ایڈز پروگرام جنوبی افریقا کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اے آر وی ڈرگ دے کر ایڈز کی ماں سے بچے کی جانب منتقلی کو بآسانی روکا جاسکتا ہے اور اس کا خطرہ صرف ایک فیصد تک رہ جائے گا۔ ماہرین کے مطابق ٹیٹوز اور جسم میں سوئیاں لگانے سے ایڈز نہ ہونے کا تاثر غلط ہے کیونکہ یاد رہے کہ ایڈز خون سے منتقل ہوتا ہے اور جو سوئیاں، ٹیٹوز کے لیے استعال کی جاتی ہیں انہیں عام طور پر جراثیم سے پاک نہیں کیا جاتا اس لیے ان سے ایڈز دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتی ہے۔

ایچ آئی وی موت کا پیغام ہے: کئی لوگوں کے نزدیک ایڈز ہونے کا مطلب موت ہے بلکہ اسے موت کی سزا سمجھا جاتا ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا فوری علاج اس کو بڑھنے سے روک دیتا ہے اور مزاحمتی نظام کو بہتر بناتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ 95 سے 99 فیصد مریض جو اے آر ٹی تھراپی کا استعمال کرتے ہیں وہ ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں۔۔

ایچ آئی وی اور ایڈز ایک ہی ہیں: دراصل ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو ایڈز کا باعث بنتا ہے لیکن مناسب علاج سے کسی بھی شخص کو پوری زندگی ایڈز سے بچایا جا سکتا ہے۔ ایڈز ایچ آئی وی سے پھیلنے والی بیماری کا ایڈز آخری اسٹیج ہے جہاں انسانی جسم کا مزاحمتی نظام (امیون سسٹم) بری طرح تباہ ہوجاتا ہے۔

ایڈز کا پتہ چلنے کےبعد مریض زیادہ لمبی زندگی نہیں گزارتا: ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ایڈز کے علاج کی ٹیکنالوجی میں ترقی نے اس سوچ کو بدل دیا ہے اس لیے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ فوری اور مستقل علاج سے صحت واپس آنے لگتی ہے اور ایڈز کا مریض بھی عام لوگوں کی طرح لمبی زندگی گزارتا ہے۔

جب کہ مستقبل میں اس بیماری کا مزید ترقی یافتہ علاج متعارف کرایا جا رہا ہے۔ 1985 میں ایڈز کا کوئی علاج موجود نہ تھا، 1995 میں ایک گولی ایجاد کی گئی جس نے اس بیماری کو پھیلنے سے روکا اور 2005 میں اس کے علاج کے لیے تین گولیاں ایجاد کرلی گئیں جب کہ اب 2015 میں انجیکشن تیار کیے جارہے ہیں جو تین ماہ کے لیے کافی ہوں گے۔