تحریر: ڈاکٹر یاسمین ہندوستان کی تاریخ میں ١٨٥٧ء کی حیثیت ایک سنگ میل کی ہے۔ جس پر بہادر شاہ ظفرکا نام جلی حروف میں کندہ ہے۔ ان کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں۔ا ن کی حیثیت نہ صرف سلطنتِ مغلیہ کے ایک چشم و چراغ، جنگ آزادی کے ایک سربراہ ، ایک پاک باز و نیک طسنت انسان کی تھی بلکہ ان کی ایک اہم شناخت یہ ہے کہ اردو شعر و ادب کو جو دولت بخشی وہ آج بھی ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کی مختلف اصناف کو مالا مال کیا ۔ ان کی کلیات میں غزلوں کے علاوہ قصاید ، شہرِ آشوب، بھجن، گیت، مرثیہ، سلام جیسی اصناف بھی کافی مقدار میں ملتی ہیں۔اس مضمون میں صرف ان کی غزلیہ شاعری کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالوں گی۔
غزل اردو شاعری کی وہ صنف ہے جس میں جذبات و احساسات کی عکاسی تو ملتی ہے ساتھ ہی خیالات کی لہریں بھی اول تا آخر موجزن رہتی ہیں۔ اس صنف کے اپنے آداب ، تقاضے اور مطالبے ہیں بقول پروفیسر آل احمد
سرور غزل میں ذات بھی ہے اور کائنات بھی ہے ہماری بات بھی ہے اور تمہاری بات بھی ہے
جہاں تک بہادر شاہ ظفر کی غزلیہ شاعری کا سوال ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے یہاں غزل اپنے سارے امکانات کے ساتھ موجود ہے۔ ان کی غزلوں میں عشقیہ جذبات و واردات بھی ہیں اور زندگی کے تجربات و مشاہدات بھی۔ سوز و گداز بھی ہے اور رندی و سرمستی بھی تصوف کے رموز و نکات بھی ہیں اور فلسفیانہ موشگافی بھی۔ آئیے اب ان کی شاعری کی ایک ایک جہت کا تجزیہ کیا جائے۔
Poetry
عشق اور معاملاتِ عشق اردو شاعری کا خمیر ہے۔اس کی تہذیبی اور تخلیقی قوت کا ذکر تقریباً تمام شعراء نے کیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے بھی عشق کو اس کی تمام تر حرارتوں اور جذباتی محرکات کے ساتھ پیش کیا ہے۔شاعر کو عشق پر ناز ہے۔ ان کی طبیعت عشق سے زیست کا مزہ اٹھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظفر نے تجرباتِ عشق و محبت کو جس سرشاری اور بغیر کسی ذہنی تعصب یا تحفظ کے بھرپورانداز سے پیش کیا ہے ان میں بہر حال ایک لطف اور تازگی ملتی ہے اور خط و کیف اور رنگینی و سادگی بھی۔
دیکھئے یہ اشعار بوسہ مانگا تو کہا بس چلو یاں سے نکلو منہ لگایا تو کیا تم تو ظفر چل نکلے
رات کس گل کو گلے لگایا تھا ظفر پیر ہن جو عطر کی خوشبو میں ہے ڈوبا ہوا کوچہ جاناں کے جانے کی نکالی ہے یہ راہ خاک ہو کر آپڑے ہیں ہم صبا کی راہ پر
ان اشعار کی روشنی میں ہمیں ظفر کی شاعری کی احتساسیت و حلاوت مستانہ طمطراق آزادہ روی و بے باکی، عشق و محبت کی سرخوشی اور نوائے عاشقانہ کی گونج کا اندازہ ہوتا ہے۔ہر شعر میں نشاط اور امنگ کی لہک رچا ہوا ہے۔ پہلے شعر میں جہاں لمسیایت کیفیت کا اظہارہے تو دوسرے شعر میں شبابی پیکر کو ابھارا گیا ہے تیسرے شعر کو بصری پیکر عطا کیا ہے۔
Love poetry
دیگر اشعار میں جو ایک چیز مشترک ہے وہ Communicative Strategiesکی بہترین مثال ہے جن میں جذبے کی گہری اور عشق کی تڑپ اپنی تمام عمق اور اثر کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ ظفر کی عشقیہ شاعری بھی باوجود شدت احساس کے کامل سپردگی اور بے چارگی نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ظفر کی عشقیہ شاعری میں اعتدال، توازن اور شاعرانہ محاسن کے ساتھ جذبات کی صداقت بھی ہے۔ یہ بے تکلفی، فصاحت اور محاورہ بندی بھی ظفر کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
بقول فراق گورکھپوری ظفر کے کلام میں خلوص جذبات، شاعرانہ احساس، سوزو گداز اور دل میں چٹکیاں لینے والی اور ایک درماندگی کا کیف اور کئی جگہ موسیقیت کا جو عنصر ملتا ہے وہ کل کا کل ظفر کا ہے۔” ظفر کی غزلیہ شاعری کی ایک اہم جہت زندگی کی المناکی کا اظہار ہے یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ انسانی زندگی کے ارتقاء کی کہانی اس کے دو جذبوں سے عبارت ہے،
Bahadur Shah Zafar
خوشی اور غم، بقول غالبایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونقنوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی گویا خوشی کی طرح غم بھی زندگی کی ابدی صداقت ہے۔ انگریزی شاعر ہارٹ مین کا عقیدہ تھا:۔ انسانی زندگی میں مسرت و شادمانی کے ذخیروں سے زیادہ غم و الم کا ذخیرہ ہے۔ غم کا جذ بہ کس قدر اہم ہے کہ انگریزی کے مشہور شاعر شیلی بیانگ دہل اعلان کرتا ہے۔ ہمارے شیریں نغمے وہ ہیں جو سب سے المناک خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔” بہادر شاہ ظفر کے یہاں بھی غم کا اظہار اپنی تمام ہمہ گیریت اور قوت کے ساتھ موجود ہے۔ ان کے یہاں غم میں مظلومیت یا بیچارگی نہیں بلکہ وہ غم میں بھی شادمانی کے پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں اور اس کی پزیرائی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔
یہ غم خواہ غم دوراں ہو یا غم عشق دیکھئے یہ اشعار
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار شکیب ذرا نہ رہا غم عشق تو اپنا رفیق رہا، کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
کھائے گا ہم کو کہاں تک فرقتِ جاناں کا غم دیکھ لینا کھاتے کھاتے غم کا منہ پھر جائے گا
رہا ہے تو ہی غم خوار اے دل غم گیں تیرے سوا غمِ فرقت کہوں تو کس سے کہوں
میں ہوں عاشق مجھے غم کھانے سے انکار نہیں کہ ہے غم میری غذا
تو ہے معشوق تجھے غم سے سروکار نہیں کھائے غم تیری بلا
اے یاس و الم جائو میرے خانۂ دل سے مہمان کوئی اب تو یہاں اور نہیں آتا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ظفر کے یہاں غم ایک نوحہ نہیں بلکہ وفورِ نشاط، ولولۂ زندگی، بے پایاں امنگ اور زندگی کو مرقع بخشنے والے حوصلوں کا وسیلہ ہے۔ پہلے شعر میں ”غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا” ایک حسی تجربہ ہے جس میں تہذیب اور رچائو صاف جھلکتا ہے۔ دوسرے شعر میں ”کھائے گا”، ”کھاتے کھاتے” کے توسط سے غم کو اپنے منفرد تخلیقی اسلوب میں اس طرح مجسم کر کے شعر کا جامہ پہنایا گیا ہے کہ حسّی تجربہ بصری پیکر اختیار کرلیتا ہے ۔ تیسرے شعر میں ”اے دلِ غم گیں” شاعر کے کرب کے شدید احساس کا اشاریہ بن جاتا ہے لیکن دوسرے مصرعے کے ”غم فرقت کہوں تو کس سے کہوں” واحد متکلم ہے صیغے کے توسط سے اپنی حسّی واردات کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے
جو شاعر کے داخلی کوائف کی جذبہ انگیز زبان میں ترسیل سے عبارت ہے اور اس طرح غم کو راحت و آرام کا وسیلہ بنا کر احساس کی شدت کو پیش کیا گیا ہے چوتھے شعر میں ”غم” کو ایک غذا کے طور پر استعمال کیا گیا ہے شاعر کے نزدیک غم کو ان گنت کرنا زندگی کا بامقصد شعور اور حوصلہ مندی کی ضمانت ہے اور کامیابی کی بشارت بھی جس کی شخصیت میں یہ رنگ اور طنطنہ ہو تو اس کے سامنے غم و آلام کے پہاڑ روئی کے گالے کی طرح اڑ جائیں گے۔ ”میں ہوں عاشق”، ” تو ہے معشوق” کے اجتماع ضدین سے جو نشتریت کو ابھارا گیا ہے وہ فنکار کے تجربے کی وسعت اور مشاہدے کے گہرائی کا ضامن ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ظفر کے یہاں زندگی کی بصیرتیں بہ فیضِ غم حاصل ہوئی ہیں یہی غم انہیں ہمت و حوصلہ اور عزم مستحکم بخشتا ہے۔
ظفر کی غزلیہ شاعری کی ایک اہم خصوصیات یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری میں ایک ایسی فضا کا انعکاس ہے جسے ہم درویشانہ بے نیازی، فقیرانہ خود اعتمادی اور عرفانِ ذات کی سرشاری کا نام دے سکتے ہیں۔ ظفر کے یہاں ایسے اشعار مل جائیں گے جس کی فضائے بسیط میں انسانی تقدیر، زندگی کی بے ثباتی اور انسان کے ہاتھوں انسان اور انسانیت کی رسوائی جیسے موضوعات کی جانب بلیغ اشارے پائے جاتے ہیں جو محض روایتی طور پر بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ واقعتاً ان کی ذات ان تجربات کی مورد تھی۔ ظفر نے حالات کے سرد و گرم اور عہد کے سانحات کو اپنے دل و جگر میں سمولیا تھا اور اس کی تلخیوں کو امرت سمجھ کر پی لیا تھا۔
اس کیفیت کے اظہار میں
اے ظفر کچھ ہو سکے تو فکر کر عقبیٰ کا تو کر نہ دنیا کا تردد
بھلائی کر کہ تیرا بھی بھلا برائی کا ثمر اچھا نہیں ہے
اردو شاعری میں شکوے کی روایت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ غالب تو اسے پر شوخ انداز میں اس طرح اپنایا کہ بہت سے اشعار
پکڑے جائے فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی میرا کوئی دم تحریر بھی تھا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا
Iqbal
اقبال نے تو شکوہ اور جواب شکوہ لکھ کر قوم کے افراد کو غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کی ۔ اردو شاعری میں شکوے کے موضوع کو مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ کبھی غزل میں اور کبھی شہر آشوب میں اور کبھی واسوخت میں۔ شکوہ نام ہے آدمی کی آرزو مندی اور ناکامی کے تسلسل سے پیدا ہونے والی کیفیت کے فطری اظہار کا۔ یہ کیفیت بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ خصوصاً وہ غزل جس کا مطلع ہے
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا
اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تو نے کیوں خردمند بنایا نہ بنایا ہوتا
اس پوری غزل کا ندازِ بیان شکوہ کا ہے زبان مکالماتی استعمال کی گئی ہے جو بولنے والے اعضاء اور اس کے چہرے کا تاثر اس کی آواز کی Pitch واقع کے تئیں اس کے ردِ عمل لہجے کا تعین کرتے ہیں۔ شاعر اس بات کا شاکی ہے کہ خدا نے انسان کو خردمند کیوں بنایا۔ جس کی وجہ سے انسان خدا سے لاتعلق ہو گیا۔
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں بہادر شاہ ظفر کی غزلیہ شاعری میں عشقیہ جذبات و احساسات کی کیفیات بھی ہیں اور زندگی کی بے ثباتی کا شکوہ بھی لیکن اسے ہم کسی بھی جہت سے قنوطیت سے موسوم نہیں کرسکتے ہیں۔ ان کی شاعری میں تجربات و مشاہدات کا سمندر ہچکولے مار رہا ہے جن میں تصوف کے رموز و نکات بھی ہیں اور صالح عمل کی تلقین بھی۔