تحریر: ممتاز حیدر بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 23 برس بیت چکے ہیں لیکن مسلمان آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں۔ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے آر ایس ایس اور شیوسینا جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر 16ویں صدی عیسوی سے قائم مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی ایک تحریک چلائی اور پھر 6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہاپسند تنظیموں نے نیم فوجی دستوں کی مدد سے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔
بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں حکومت کی سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیاگیا۔بابری مسجد کی شہادت کے خلاف اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ اور شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے او ایل کے ایڈوانی سمیت 49 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جو 2 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود قانونی دائو پیچ اور عدالتوں کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 16 صدی عیسوی میں تعمیر کروائی تھی جو اسلامی اور مغل فن تعمیر کا ایک شاہکار تھی جب کہ ہندو انتہاپسندوں کا دعویٰ تھا کہ ظہیر الدین بابر نے ہندو دیواتا رام کی جائے پیدائش پر بنے رام مندر کو مسمار کر کے بابری مسجد تعمیر کی تاہم ہندو اس حوالے سے مستند تاریخی ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں۔
Babri Masjid
گزشتہ برس بھارت میں اس بات کا اعتراف کر لیاگیا کہ بابری مسجدمنظم منصوبہ کے تحت شہید کی گئی اور اس کی شہادت میں نہ صرف بی جے پی اور شیو سینا سمیت تمام ہندو پارٹیاں متحد تھیں بلکہ اس وقت کی بھارتی حکومت بھی اس سارے منصوبہ سے آگا ہ تھی۔انڈیا میں سرکاری سرپرستی میں سینکڑوں مساجد شہید اور ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایاجاچکاہے’اسکے باوجود مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے۔ایک بھارتی ویب سائٹ نے اعتراف کیا کہ بابری مسجد طے شدہ منصوبے کے مطابق شہید کی گئی جس کا سابق وزیراعظم نرسمہا راو اوربی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی سمیت بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو علم تھا، مسجد پرحملہ ایک مہینے کی خفیہ تیاری کے بعد سنگ پریوار کی تنظیم کے تربیت یافتہ شدت پسندوں نے کیا، اگر ایک منصوبہ ناکام ہوجاتاتو پلان بی کے تحت شیوسینا کے کارکنان ڈائنامائیٹ سے مسجد کواڑانے کیلئے تیار تھے۔ ‘کوبراپوسٹ’ کے خفیہ آپریشن کی رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کے آپریشن کو ‘جنم بھومی’کا نام دیاگیا جس سے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت بابری مسجد پر حملے کی سازش سے آگاہ تھی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ منصوبہ سنگھ پریوار کے مختلف دھڑوں نے تیار کیا اور اس کے لیے ایک ماہ تک خفیہ طور پرتیاری کی گئی اور اس سلسلے میں ہندو انتہا پسندوں کو تربیت بھی دی گئی جس کے بعد 6دسمبر1992کو تربیت یافتہ شدت پسندوں نے16ویں صدی کی مسجد کو شہید کردیا اور پلان بی کے تحت شیوسینا کے کارکنان کی نوبت ہی نہیں آئی۔
ویب سائٹ نے رام جنم بھومی موومنٹ سے متعلق 23 اہم شخصیات سے معلومات حاصل کر کے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔یہ انکشاف کوئی نیا نہیں۔ماضی میں بھی ہندوستان کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے بابری مسجد کی شہادت کے بارے میں سنسنی خیز بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کے اس وقت کے صدر شنکر دیال شرما کو بابری مسجد گرائے جانے کی معلومات تھی۔ ہم اس وقت صدر جمہوریہ شنکر دیال شرما کے پاس ایک خط لے کر گئے اور ان کو بتایا کہ مسجد کو 6 دسمبر کو گرا دیا جائے گا اور یہ معلومات ان کو 4 دسمبر کو ہی دے دی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں ملائم سنگھ یادو نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ مسجد گرے اور ملائم سنگھ جائیں۔بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔
یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جس میں صحن بھی شامل تھا۔صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لئے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاھکار تھا۔
Hindu Extremists
بابری مسجد کو1992میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کی ا علیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔جس کے بعد دہلی اور ممبئی سمیت ہندستان میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات میں شہید کر دیا گیاتھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے پس پشت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ٹھیکہ دار امریکی کمپنی تھی اور انہوں نے اس مقصد کے لئے امریکی کمپنی نے بہت بھاری رقم ویشو ہندو پریشد کو دی تھی،تاکہ یہ انتہا پسند ہندو تنظیم قدیم بابری مسجد کو شہید کرے۔
یہ ہولناک انکشاف ایودھیا کے مہنت یوگل کشور شاستری نے بابری مسجد شہادت کیس کی سماعت کے دوران اسپیشل جج وریندر کمار کی عدالت میں کیا تھا۔شاستری نے عدالت کو بتایا کہ جب ان کی ملاقات اس وقت کے وزیراعظم نرسہمارائو سے ہوئی تو سشل منی نے انہیں بتایا کہ ویشوا ہندو پریشد نے بابری مسجد شہید کرنے کے لئے امریکی خفیہ ایجنسی کی فرنٹ مین امریکی کمپنی سے کروڑوں روپے لئے ہیں۔ایودھیا کے مہنت یوگل کشور شاستری کئی برس وی ایچ پی کے ممبر اور لیڈروں کے انتہائی قریب رہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کا یہ کھیل ہندو مسلم فساد کرانے کیلئے کیا تھا۔ تاکہ جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی بیداری کی تحریک اترپردیش میں قدم جما نہ سکے۔سانحہ بابری مسجد کے بعد ہندو مسلم فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے اور اربوں روپوں کی جائیداد تباہ ہوگئی تھی۔امیر جماعةالدعوہ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ بابری مسجد کی سرکاری سرپرستی میں شہادت کے انکشاف سے ایک بار پھر بھارتی سیکولرازم کا پول کھل گیاہے۔بی جے پی اور کانگریس سمیت سب بھارتی جماعتیں اسلام دشمنی میں اکٹھی ہیں۔پورا انڈیا بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار ہے۔
Hafiz Mohammad Saeed
ملک میں نظریہ پاکستان پر عمل پیرا حکومت ہوتی تو انڈیا کو مساجد شہید کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ بھارت میں مسلمانوں کی مساجد اور حقوق آج بھی محفوظ نہیں ہیں۔پاکستان کو مساجدو مدارس کا محافظ بننا چاہیے۔ مسلمانوں کے نزدیک اللہ کے گھر مسجد کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کی خاطر سب کچھ قربان کیاجاسکتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان اگر جرات کا مظاہرہ کرتااور انڈیا کو اس کی دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دیاجاتا تو بھارت میں مساجد کی شہادت کے واقعات نہ ہوتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں کیا گیا۔حکومت پاکستان کو مساجدو مدارس اور مسلمانوں کی عزتوں و حقوق کا محافظ بننا چاہئے۔