تحریر: راشد علی راشد اعوان کوئی ایک سال قبل خود ساختہ قائد اعظم ثانی کے عزائم کا پردہ میں نے چاک کیا تو اس وقت مجھے لپک کر کاٹ کھانے والوں کی تعداد اتنی تھی کہ جتنی ان میں برداشت نہیں تھی، ایک سال قبل جس کو ہمارا نوجوان اپنی کم علمی اور کم عقلی پر لیڈر بلکہ آسمان کا ستون سمجھ رہے تھے آج اس کی ایک ایک بونگی کی سب کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لگ گئی ہے تو اب جھپٹ کر کاٹ کھانے والوں کے ہوش اور حواس دونوں ٹھکانے آ گئے ہیں۔
انقلاب کے داعیوں اور نئے پاکستان کی تخلیق کے لیبل پر باتوں کی پراڈکٹ سیل کرنے والے ان کاروباریوں کو تبدیلی اور انقلاب کے آرزومند نوجوان اور تحریک انصاف کے پرانے مخلص کارکن پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیا یہی ہیں وہ ”جانبازان انقلاب” جو ایک نیا پاکستان تعمیر کریں گے؟ شاہ محمود قریشی، خورشید قصوری، اعظم سواتی، جہانگیر ترین ہر پلیٹ کے دوسرے بینگن جلسہ ہو یا پریس کانفرنس ، پارٹی اجلاس ہو یا شوکت خانم ہسپتال کا ڈونرز عشائیہ، تازہ خون سے دمکتے یہی انقلابی چہرے خان صاحب کے دائیں بائیں ہونگے۔
Pakistan
اقتدار کی یہی سیاست جس کا آغاز لاہور کے مینار پاکستان سے ہوا تھا اس انقلاب کا یہ قافلہ سخت جان، لال حویلی کی دہلیز سے ٹکرا گیا، تحریک انصاف اور خان عمرانیت سے بھلے وقتوں میں مخلصانہ خوش گمانی رکھنے والے صحافی ہارون الرشید نے برسوں پہلے اپنے ایک کالم میں خان صاحب سے کہا تھاکہ ایک دن کپتان اور اس کے ساتھی بے تکے فیصلوں پر پچھتائیں گے،اور اب پچھتاوے کا دور چل نکلا ہے،جس صوبے کی قوم نے خان کوعزت دی تھی اس قوم کو لاوارث چھوڑ کر ایوان پنجاب کی دہلیز کا طواف اور تخت لاہور کا ادھورا سپنا لیکر میچ میچ کھیلنے والوں کو کچھ حاصل نہ ہوا اور کمر کے بل گرنے والوں کی اتنی عقل ٹھکانے آ گئی کہ چلو ٹوتنے سے دانت تو بچ گئے اب واپس اسی یتیم صوبے مین جا کر نئی کبڈی کبڈی کیلتے ہیں۔
کوئی دو اڑھائی سال پہلے جب خان کو خیبر پختونخواہ کی عوام نے تخت پہ بٹھایا تھا تو اس وقت موسمی لیڈر نے پولیس پولیس اور پٹواری پٹواری کا نیا کھیل متعارف کروایا تھا مگر وہ کھیل بیچ میدان کے بلکہ بیچ ایوان کے چھوڑ کر بھاگنے والوں نے اب نئے سرے ملانا شروع کر دیے ہیں،شعلے کی طرح اُٹھ کر بلبلے کی طرح ہوا میں تحلیل ہونے والوں نے صرف نیشنل ہی نہیں انٹرنیشنل میڈیا پر بھی چیخ و پکار کیساتھ واویلا مچایا تھا کہ ان کے پاس ایسی جادوئی چھڑی ہے جسے وہ گھمائیں گے اور پاکستان کے مسائل اور عوام کی مشکلات صرف90دنوں میں دور ہو جائیں گی۔
دعوے تو اس سے بھی اچھے سابقہ حکومتوں میں تھے مگر اس نوزائیدہ جماعت کے مستعار لیڈروں نے عوام کو ایسے ہپناٹائز کیا کہ خدا خدا کر کے صوبے میں ان کی حکومت تو بن گئی مگر ہنس کی چال چلنے والوں کو جب اپنی چال بھی بھول گئی تو انہوں نے شطرنج کی تمام چالیں کھیلنے کے بعد ناکامی و نامرادی کے بعد کوئی ڈیڑھ سال بعد دوبارہ اپنے تخت پشاور کی جانب مڑ کر دیکھا اور اور اب ایک بار آئو اور تائو میں لگ گئے ہیں،نوے دن کی نوید سحر سنانے والوں نے ایک بلدیاتی نظام کا وعدہ وہ بھی عوامی غیض و غضب سے بچنے کیلئے متعارف کیا کروایا ہے کہ اب اسحاق دار کے منی بجٹ کی طرح آئے روز کوئی نہ کوئی ترمیم آ دھمکتی ہے،عوام ایک ساتھ بیوروکریسی اور بلدیاتی نظام نالاں ہیں تو دوسری جانب جس سج دھج سے لاکھوں لگا کر جن کونسلروں نے اپنے نام شہیدوں میں لکھوائے تھے وہ بھی ابھی تک اپنے اختیارات ہی ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
Local Government
کونسلرز تو دور کی بات رہی ضلعی نظامت اور تحصیل حکومتوں والوں کو بھی اپنی شرمندگی چھپانی مشکل ہو رہی ہے کہ وہ کس دلدل میں آ پھنسے ہیں،ماضی کے ان دھرنوں اور قوم کے وقت کے ضیاع کو ہی سامنے رکھیں تو ان نالائقوں سے صرف 126 دنوںکے دوران ہونے والے جانی،مالی،اخلاقی، قانونی اور آئینی نقصانات کا حساب کون لے گا ؟ اخلاقیات کاجنازہ نکالنے والوں نے اسی دھرنے میںقومی معیشت کو نقصان پہنچایا، جذبات کچلے، گالی گلوچ کا غلیظ کلچر رائج کیا،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی نہ بخشا اورشرمناک تنقید جاری رکھی ، سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی دیانت اور خلوص کورگڑا،صحافیوں پر لفافہ صحافت کے الزامات داغے اور اب معافی،،معافی اور معافی۔۔۔کیا خان صاحب کی یہی سیاست ہے کہ کسی کی ذات کو اس قدر برا بھلا کہیں اور آخر میں مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ معافی کے خواستگار بن جائیں؟؟میرا تو ایک مشورہ ہے کہ خان صاحب یہ روگ آپ کے بس کا نہیں ہے،کانوں کے آپ کچے ہیں۔
برداشت کا مادہ آپ میں اور آپ کے تربیت یافتہ کسی میں بھی نہیں ہے اس لیے کوئی کرکٹ اکیڈمی کھولیں یا سلطان راہی کا گنڈاسہ تھام لیں اور گرتی ہوئی فلم اندسٹری کو سنبھالا دیں یقین سے کہتا ہوں کہ کہ اگلے چند ہی سالوں میں آپ کے دم قدم سے یہ انڈسٹری ترقی و کامیابیوں کے زینے عبور کرتی جائے گی،آپ کے فلم بین جو پہلے ہی آپ کے ڈائیلاگ سے محظوظ ہوتے ہیں انہیں ایک نیا ہیرو مل جائے گا اور وہان آپ کی بے تکی باتوں پر کوئی سنجیدگی سے کان بھی نہیں دھرے گا۔