ہجوم شوق تمنا، نہ اضطراب جنون نہ عاشقان ہزاران، نہ نہ وہ شہر فسوں خدا کرے ہوحقیقت وہ کوئی خواب نہ ہو کروں سول جو اس سے کوئی جواب نہ ہو کبھی یوں بھی ہو تو ہو، ہومقابل کوئی راز الفت میں تھا جب شامل کوئی مٹی مٹی سے کہانی، پھیکے پھیکے سے رنگ تھیں پاگل ہوائیں، فضائوں کے سنگ مانگتا ہے وہ پھر سے وہی روز و شب جس کے ہونٹوں پہ رہتا تھا انکار تب دھیرے دھیرے اب وہ مقام آ گیا بن پوچھے اس کا سلام آ گیا جس کو مسکل میں پڑھنا گوارا نہ تھا آج سب کچھ ہے کل جو ہمارا نہ تھا