تحریر: شاہ فیصل نعیم ماضی میں کی گئی غلطیاں ،گزرے ہوئے واقعات اور اُن سے اخذ تجربات حال کو سمجھنے میں انسان کے لیے رہنما اصولوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ انسان اپنے گرد چاہے لاکھ حصار بنا لے، خود کو بڑی بڑی دیواروں میں چھپا لے لیکن وہ اپنے گزرے کل سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ انسان کا کل سائے کی طرح اُس کے ساتھ ہے۔ یہ گلی قاسم جان کا منظر ہے۔ مرزا اسداللہ خاں غالب گلی میں چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی سمت بڑھ رہے ہیں سامنے سے ایک شخص آرہا ہے جس نے ہاتھوں میں کبوتر پکڑا ہوا ہے۔ مرزا کے پاس سے گزرتے ہوئے سلام عرض کرتا ہے مرزا جواب دیتے ہوئے پوچھتے ہیں: “کیوں میاں لکے (کبوتروں کی ایک نسل) ہیں”؟ مرزا کا اشارہ آنے والے کے ہاتھوں میں پکڑے کبوتر کی طرف ہے۔
“کہاں حضور!” “لکے لکھنئو کے اُڑگئے جب سے فرنگی آئے ہیں۔۔۔۔اب تو خاک اُڑتی ہے۔۔۔۔آپ تو اس گلی قاسم جان سے باہر ہی نہیں آتے ۔۔۔۔ذرا قلعے تک جاکر دیکھیں تو پتا چلے۔۔۔۔” “ہاں سنا ہے ۔۔۔۔انگریزوں نے شہزادوں کے سر قلم کر کے خونی دروازے پر لٹکادئیے اوربادشاہ سلامت کو قید کرکے رنگون بھیج دیا۔۔۔۔اب ہمارا قلعے میںہے کون۔۔۔”؟ “کمپنی سرکارتو ہے۔۔۔۔آپ کا وظیفہ تو بحال کردیا انگریزوں نے۔۔۔” یہ الفاظ سن کر مرزا کے چہرے کا رنگ بدلتا ہے: “دیکھومیاں! شکایت ہم سے نہیں۔۔۔۔خود سے کرو۔۔۔۔قومیںعوام سے بنتی ہیں۔۔۔بادشاہوں سے نہیں۔۔۔اور آج بھی اگر آپ کبوتر نا اُڑا رہے ہوتے ۔۔۔تو یہ ملک کچھ اور ہوتا۔۔۔اس کے عوام کچھ اور ہوتے۔۔۔۔جائو اور جا کر کبوتر اُڑائو۔۔۔”!!
Story
چند الفاظ میں اپنی بربادی کی داستان سنتے ہوئے وہ شخص اپنا سا منہ لے کرچل پڑتا ہے اور مرزا گردن جھکائے جانے والے کو گلی کی نکڑسے غائب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بہت کم ہیں ایسے لوگ جو اپنے گزرے کل کو پڑھتے ہیں تاکہ اپنے حال کو سمجھ سکیں۔۔۔۔ اپنی غلطیوں کو ماننابھی بڑے دل گردے کاکام ہے ہر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی۔ابھی میںآپ کو ماضی میں ہی رکھوں گا ۔۔۔۔بنیاد سے مکان ہونے تک کا سفر اسی میں بیان ہو گا۔”پاکستان” دنیا کے نقشے کو چیرتے ہوئے اور عالمِ انسانی کو ورطہِ حیرت میں ڈالتے ہوئے کائنات کے نقشے پہ ظہور پذیر ہونے والاایک بے مثال ملک۔ جس کی بنیادیں استوار ہیں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے دوران لٹ جانے والے شہدا کے لہوسے۔۔۔
جس کی سرحدیں گواہ ہیںیہاں بسنے والی غیور قوم کے جذبات کی اور اس کے گردا گرد بسنے والے آگاہ ہیں اس قوم کی روایات سے۔ یہ ١٩٤٧ء کے بعد کا زمانہ ہے جب دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اپنے تمام تر محدود وسائل کے باوجوداُبھرتی ہوئی یہ اسلامی ریاست،اس چمن کی آبیاری کے لیے اپنا تن من دھن لٹاتے محبانِ وطن اور دشمنانِ وطن کے مذموم مقاصد(“یہ ملک اپنی ضروریات پوری نہیں کر پائے گااو ر اس کو بنانے والے چھ ماہ بعد روتے ہوئے ہمارے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ ہمیںدوبارہ ہندوستان کا حصہ بنا لیںاور ہم اس ٹکڑے کو ذلیل ترین شرائط پر پھر سے قبول کرلیں گے”)کو اُنہی کے دماغوں میںشکست دینے کی لگن۔ فرمانِ قائدکہ اس ملک کے خدمتگارو میں تمہیں کہتا ہوں کہ محنت کی روش کو ترک مت کرنا، پوری ایماندار ی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہنا اور تمہارا حکمران کوئی بھی سیاست کوا پنے فرائض کی راہ میں رکاوٹ مت بنے دینا۔
Pakistani Nation
انہی راہوں پر چلتے ہوئے اس قوم نے اس ملک اور اس کے اداروں کے لیے کام کیا تھایہ وہ زمانہ تھاجب محنت اس قوم کا شیوا اور ایمانداری اس کی روش تھی۔١٩٦٥ء آئینہ دار ہے اس قوم کے اعمال کاجب پاکستانی ایک قوم تھے اور اس ملک کے ادارے تندہی سے کام کر رہے تھے۔ کوئی قوم کسی قوم کو شکست نہیں دیتی بلکہ اداروں کی ناکامی سے قوموں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ١٩٧١ء میں یہی ہوا تھااُس دور میںنسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات اس قوم میں جگہ بنا چکے تھے۔
ادارے ہی کیوں اہم ہیں ؟ یہ جنگ کا زمانہ ہے ایک عورت ونسٹن چرچل کے پاس آتی ہے: “ہمارا ملک جنگ لڑ رہا ہے اور تمہیں ذرا سی بھی پریشانی نہیں”۔ چرچل کے چہرے کے تاثرات بدلتے ہیں اور عورت سے سوال پوچھتا ہے:۔
“ڈیری لیڈی!کیاآپ کوانصاف نہیں مل رہا؟کیا اس ملک کی پولیس آپ کی حفاظت نہیں کررہی؟کیا ہماری انتظامیہ اپنے فرائض انجام نہیں دے رہی”؟ عورت جواب دیتی ہے: “مجھے انصاف، حفاظت میسر ہے اور انتظامیہ سے بھی کوئی شکایت نہیں”۔ چرچل کہتا ہے: “ڈیری لیڈی! جائواور فکرمت کرو۔۔۔۔ہمارے ملک کو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔کبھی قومیں قوموں کو شکست نہیں دیتیںبلکہ اداروں کی ناکامی قوموں کو شکست سے ہمکنار کرتی ہے”۔
آج اس ملک میں کیا ہورہا ہے؟اداروں،اداروں اور صرف اداروں کی ناکامی نے اس ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگراس ملک کے لوگ یہ پروا کیے بغیرکہ ملک کے بازار ِ سیاست میںکیا بِک رہا ہے اپنے فرائضِ منصبی باخوبی ادا کر رہے ہوتے اس ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آج ہم میںاقربا پروری،رشوت ستانی،بے ایمانی،فرائض سے غفلت اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے جیسی لعنتیںجنم نالیتیں۔حکمران قوموںکے اعمال کی جزا و سزا ہوا کرتے ہیں۔
بحثیتِ قوم اگر ہمارے اعمال اچھے ہوتے تو اس قوم کا معیارآج کچھ اور ہوتاہمیں وطن فروش حکمران نا ملتے اور آج ہم دہشتگردی کی جنگ کا ایندھن نا بن رہے ہوتے جو ہمارے ملک میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکی ہے۔ اگر ضمیر فروش دین کے ٹھیکیدارنا ہوتے تو فرقہ واریت اپنی موت آپ مر چکی ہوتی۔آج ہم جس موڑ پر کھڑے ہیںوہاں ہمیں حکمرانوں پر لعن طعن کرنے کی بجائے اپنے دامن میں جھانکنے کی ضرورت ہے وہ اس لیے کے اس ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔