تحریر: نعیم الرحمان شائق ہر طرف گہما گہمی تھی، کیوں کہ انتخابات قریب تھے ۔سرکار کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا ۔ لوگ شدت سے انتخابات کے دن کا انتظار کر رہے تھے۔ من چلے نوجوان بڑے جوش و خروش سے اپنی پارٹی کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس کے لیے انھوں نے جھنڈے اور کارڈ وغیرہ لے رکھے تھے ۔ انتخابات ہونے میں کچھ دن رہتے تھے ۔ دلچسپیاں بڑھتی جارہی تھیں ۔ نعرے بازیاں عام ہورہی تھیں۔ کبھی دن ڈھلے ، کبھی سر ِ شام اور کبھی رات کو ۔ پارٹی کے سربراہان کے جذبات بھی قابل ِ دید تھے ۔ جہاں آتے ، مخالف پارٹیوں کی خوب دھجیاں اڑاتے ۔ عوام کو سبز باغ دکھاتے ۔ ان کے بیانات سے یوں لگتا تھا ، جیسے انتخابات کے بعد واقعی سب کچھ بدل جائے گا ۔ غربت ختم ہوجائے گی۔
اداسیاں روٹھ جائیں گی ۔ زرد چہرے خوشی سے تمتما اٹھیں گے ۔ دہشت گردی اور قتل وغرت گری کبھی نہیں ہوگی ۔ عوام ایک گیلن پانی کے لیے سڑکوں سڑکوں نہیں بھٹکیں گے ۔ مہنگائی اپنی موت آپ مر جائے گی ۔ غرض ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی ۔ بہاریں ہی بہاریں ہوں گی ۔بوڑھے پیشین گوئیاں کر نے میں مصروف تھے ۔یعنی ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ کون جیتےگا اور کون ہارے گا۔ اس ضمن میں ان کا پچاس سالوں سے زیادہ تجربہ تھا ۔ حکم رانوں کی بیان بازی پر ان بوڑھوں کا تبصرہ بڑا پر مغز ہوتا تھا ۔ کیوں کہ یہ بوڑھے پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے یہی کچھ تو سنتے آرہے تھے ۔ ساٹھ ستر سالوں سے کچھ بھی نہیں بدلا تھا تو اب اچانک کیوں کر انقلاب آجائے گا؟۔
مگر وہ بالکل ساکت تھا ۔ پہاڑ سے زیادہ خاموش تھا ۔ نہ اس میں جوش تھا ، نہ جذبہ ۔ نہ اس نے کوئی جھنڈا لیا تھا ، نہ کوئی کارڈ بنوایا تھا ۔اس دفعہ اس نے کوئی نعرے بازی بھی نہیں کی تھی ۔ اخبار پڑھنا اور خبریں دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔ وہ گم صم رہتا تھا ۔ یہ پہلی بار ہو رہا تھا ۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ہر دفعہ انتخابات سے پہلے اس کے جذبات ، اس کا جو ش ، اس کا خروش قابل ِ دید ہوتا تھا ۔ اس سے پہلے وہ اپنی پارٹی کی محبت میں شدید ہوتا تھا ۔اپنی پارٹی کی حمایت میں مخالفین سے گرما گرم بحث کرتا تھا ۔ پارٹی کی محبت میں سرشار ہو کر جب وہ نعرے بازی کرتا تو خود بھی جذبات کے دریا بہاتا اوردوسرے حامیوں کو بھی جذباتی کر دیتا ، مگر اس دفعہ تو وہ بالکل بدل گیا تھا ۔ پارٹی کے مخالفین اس کی پارٹی اور اس کے حکم رانوں کا مذاق اڑاتے ، لیکن وہ ان کو کچھ بھی نہ کہتا ۔بس خاموش رہتا ۔ ایسا لگتا تھا ، جیسے پارٹی کی طرف سے اسے کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے ۔شاید اس لیے وہ گم صم اور خاموش رہتا تھا۔
Politics
بچپن میں اس کے گھر میں سیاسی موضوعات پر بحث ہوتی تھی ۔ اس کے گھر میں انواع و اقسام کے اخبار ات آتے تھے ۔ وہ بچپن ہی سے سیاسی بحث سننے کا عادی ہو گیا تھا ۔ وہ چھوٹا تھا ، مگر اس کو پاکستان کی قریبا تمام پارٹیوں کے نام آتے تھے ۔ کچھ بڑا ہوا تو اخبارات پڑھنا اس کا بہترین مشغلہ بن گیا تھا ۔ اس کی تعلیم اجبی سی تھی ، مگر اخبارات کے صفحات میں موجود خبریں ، تجزیے اور تبصرے پڑھ بھی لیتا تھا اور سمجھ بھی لیتا تھا ۔ اس فن میں وہ طاق ہو چکا تھا ۔ اخبارات پڑھتے ہوئے ایک سیاسی رہنما کے کارناموں پر اس کی نظریں پڑتی رہتی تھیں ۔شروع شروع میں تو سرخیاں پڑھ کر آگے بڑھ جاتا تھا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ اس سیاسی رہنما سے متعلق قدرے تفصیل سے پڑھنے لگا ۔ جہاں اس کا نام دیکھا ، بس پڑھنے بیٹھ گیا ۔ نا دانستہ طور پر یہ سیاست دان اس کے دل میں گھر کرنے لگا۔
یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اس سیاست دان اور اس کی پارٹی کا “جیالا” بن گیا ۔حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کے کارکن ہونے کا حق ادا کر دیا ۔ اس کے جذبات ، اس کے احساسات ، اس کا چین ، اس کا سکون ، اس کی محبت ، اس کے دن ، اس کی راتیں ۔۔۔ سب کچھ پارٹی کے لیے وقف ہو گیا تھا ۔ جب اس کا رہنما انتخابات سے پہلے غربت ، مہنگائی اور قتل و غارت گری وغیرہ کے خاتمے کی بات کرتا تو وہ سمجھتا کہ واقعی یہ سب کچھ بدل جائے گا ۔ وہ ہمیشہ اپنی پارٹی سے آس لگائے رکھتا تھا ۔ وہ غریب تھا ۔ اس کی شادی ہو چکی تھی ۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی پارٹی اس کی سیاسی وابستگی اور جذبات کو دیکھتے ہوئے اس کے حال پر ضرور رحم کھائے گی ۔ جب اس کی پارٹی برسر ِ اقتدار آئے گی تو وہ امیر کبیر ہو جائے گا ۔ اس کو اس کے جذبات اور وابستگی کا صلہ ضرور ملے گا۔
پھر ایک دن انتخابا ت ہوگئے ۔ اس کی پارٹی جیت گئی ۔ وہ خوش ہو گیا کہ اب اس کی امیری اور ٹھاٹھ کے دن شروع جائیں گے ۔مگر کچھ بھی نہ ہوا ۔ جس لیڈر پر وہ جان چھڑکتا تھا ، اس کے کچھ کام نہ آیا ۔ کچھ بھی نہیں بدلا ۔ سب کچھ وہیں رہا ۔ اس کے گھر میں انتخابات سے پہلے بھی غربت کے اندھیرے تھےاور انتخابات کے بعد جب اس کی پارٹی بر سر ِ اقتدار آگئی ، تب بھی وہ غریب رہا ۔ اس کا بیٹا سخت بیمار ہوگیا ۔ اپنے بیٹے کی یہ حالت اس سے دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ اس طرح وہ پارٹی کا مخالف بن گیا ۔ بلکہ سخت ترین مخالف اس کی محبت ، نفرت میں بدل گئی ۔ ایک دن وہ غربت اور بے روز گاری سے تنگ آکر خود کو فروخت کرنے نکل پڑا!!!۔
PPP Jiyale
آخر میں ایک خبر پڑھیے ۔ سندھ کے علاقے سکھر میں پیپلز پارٹی کا ایک کارکن غربت اور بے روز گاری سے تنگ آکر خود کو فروخت کرنے نکل پڑا ۔ پرویز میرانی نے اپنے بیٹے کے ہم راہ سکھر پریس کلب پہنچ کر روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ میں آج خود کو فروخت کرنے آیا ہوں ۔ میں غربت اور بے روز گاری سے تنگ آگیا ہوں ۔ میرے بیٹے کی حالت خراب ہے ۔ پتا نہیں ، اس کو کون سی بیماری لگ گئی ہے ۔ اس کے منھ سے خون آرہا ہے ۔ اب میں چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے خرید لے اور میرے بیٹے کی زندگی بچا لے ۔ میں یہ سب کچھ اپنے بچوں کے لیے کر رہا ہوں ۔ میرے گھر میں غربت ہے اور اب مجھ سے بچوں کا سسکنا اور بلکنا دیکھا نہیں جاتا ۔ مخیر حضرا ت مجھے خرید لیں ۔ میں ان کی پوری عمر غلامی کروں گا ۔حکم ران ووٹ لے کر بھاگ جاتے ہیں ۔ میری زندگی بچا لو ۔(نوٹ: ایک خبر کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے یہ فرضی کہانی بنائی گئی ہے۔)۔