اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیلیفورنیا میں فائرنگ کا واقعہ افسوسناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ افسوس کے ساتھ اس میں ایک پاکستانی خاتون تاشفین ملک کا نام آیا ہے۔ جب یہ نام آیا تو وزارت داخلہ نے پہلے دن سے ہی تفتیش شروع کر دی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ میڈیا میں تاشفین ملک کے حوالے سے جو خبریں رپورٹ ہوئی وہ درست ہیں۔ تاشفین ملک کے خاندان کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے جو 20 سے 25 سال قبل سعودی عرب منتقل ہو گیا تھا۔ تاہم تاشفین ملک پاکستان آتی جاتی رہیں اور یہی پر اس نے تعلیم مکمل کی۔
بعد ازاں تاشفین ملک کی سعودی عرب میں ہی شادی ہوئی اور یہ خاتون وہیں سے امریکا گئی تھی۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کیلفورنیا میں ہونے والی دہشتگردی واقعے کی امریکی حکومت سے باضابطہ مذمت کر چکی ہے۔ امریکی حکومت نے اس واقعے پر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ کیلفورنیا واقعے کے حوالے سے کسی امریکی اہلکار نے وزیراعظم نواز شریف یا وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے کوئی ملاقات نہیں کی۔ اس حوالے سے میڈیا میں آنے والی تمام خبریں بے بنیاد ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ایسی من گھڑت خبروں کے پیچھے مخصوص مقاصد ہیں۔ ضرورت ہو تو انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ تاشفین ملک کے متعلق معلومات عالمی قوانین کے مطابق شیئر کریں گے۔
امریکی حکومت کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ایک شخص کی وجہ سے کسی قوم، ملک یا مذہب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کیس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی بھی مقدمے کی مدعی حکومت نہیں بلکہ ریاست ہوتی ہے۔
حکومت نے عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر درج کرنے کی صرف اجازت دی ہے جبکہ فیصلہ عدالت میں ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ جوائنٹ ایوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات پر قائم ہوا تھا۔
مقدمے کے وقت کا تعین بھی جے آئی ٹی نے کیا تھا۔ جے آئی ٹی کی بنیاد پر قائم مقدمے کی ابھی تفتیش ہوگی جس کے بعد یہ معاملہ عدالت میں جائے گا۔ چودھری نثار نے کہا کہ کسی نے ممبئی حملہ کیس پر اعتراض نہیں اٹھایا کہ وہ کیس یہاں کیوں چل رہا ہے۔