تحریر: عفت وہ ٹھوکریں کھاتی مغلظات بکتی بھاگ رہی تھی چند بچے ہاتھوں میں پتھر لیے اس کے پیچھے تھے ۔وہ مختلف گلیوں میں اس کا پیچھا کرتے رہے پھر اس کھیل سے اکتا گئے ۔اور اپنے اپنے گھر چل دئیے۔انسان بھی کیا قوم ہے اپنے ہم جنسوں کو تماشہ بنا کر بھی خوش ہوتا ہے ۔وہ گرتی پڑتی اپنے گھر میں داخل ہوئی۔اور چارپائی پہ ڈھیر ہو گئی ۔بشیراں گھر لوٹی تو دروازہ کھلا تھا وہ بڑبڑاتی ہوئی اندر آگئی مریم بے خود پڑی سو رہی تھی اس کے بازو پہ خراشیں تھیں جن سے نکلنے والا خون رس رس کے جم چکا تھا ۔ماں کی ممتا جاگ اتھی اس نے پیار سے اس کے بکھرے بال سنوارے گیلا دوپٹہ کر کے اس کے زخم صاف کیے
۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔مریم نے کسما کر آنکھیں کھول دیں ماں کو سامنے پا کر مسکرائی۔اماں بھوک لگی ہے ۔میں صدقے میری رانی اٹھ کھانا کھا میں لے کے آئی ہوں ۔تو جا منہ دھو کے آ ۔بشیراں نے اٹھتے ہوئے کہا ۔مریم صحن میں لگے نلکے پہ منہ دھونے کیا گئی آدھی گیلی ہو کر آئی ۔تب تک بشیراں لایا ہوا قورمہ پلیٹ میں ڈال کے ساتھ دو نان رکھ کر آئی اور مریم کے آگے رکھ دیا ۔آج پھر تو باہر گئی تھی ؟ نئیں اماں وہ غبارے والا آیا تھا میں نے لینا تھا وہ لینے گئی تھی مریم نے بڑے بڑے نوالے نگلتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی پھر بچے مجھے مار رہے تھے یہ دیکھو چوٹ وہ کھانا بھول کر اپنی کہنیاں دکھانے لگی جہاں خراشیں تھیں ۔
مریم تیرہ سالہ ابنارمل بچی تھی جس کا جسم عمر سے زیادہ کمزور تھا ابلی ہوئی آنکھوں میں بے وقوفانہ تاثر جھلکتا تھا کوئی اسے پاگل کہتا اور کوئی جھلی ۔بشیراں کے تین بچوں میں بچ رہنے والی وہ اکلوتی بچی تھی بشیراں کا شوہر اسے چھوڑ کر جا چکا تھا اور اس نے دوسری شادی کر لی تھی ۔بشیراں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی اور اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پالتی تھی پہلے وہ مریم کو ساتھ لے جاتی تھی مگر اس کی بیگم صاحبہ کو مریم پہ اعتراض تھا کہ کہیں اس کے بچے بھی ابنارمل نہ ہو جائیں سو اب بشیراں اسے گھر چھوڑ جاتی اور ساتھ والی پڑوسن کو کہہ جاتی کہ چکر لگا لے ۔مگر حقیقت یہ تھی کہ پڑوسن کو اتنی فرصت کب تھی جو یہ درد ِ سر مول لیتی ۔مریم ویسے تو گھر میں رہتی تھی بس کبھی کبھی کسی پھیری لگانے والے کی آواز پہ باہر نکل جاتی اورمحلے کے بچوں کے ہاتھ ایک تماشہ آجاتا وہ اس پاگل کہتے پتھر مارتے اور مریم ان کو گالیاں دیتی اور اول فول بکتی ۔بشیراں نے چائے کی پیالی بڑے صاحب کے آگے میز پہ رکھ دی ۔
Newspaper
انہوں نے اخبار سائیڈ پہ رکھی بشیراں بیٹی کو گھر چھوڑ کے آتی ہو ؟جی صاحب وہ بیگم صاحبہ منع کرتی ہیں اسے یہاں لانے سے ،بشیراں نے مجید صاحب کو بتایا ۔اسے اکیلی مت چھوڑا کرو حالات اور زمانہ بہت خراب ہے آئے روز خبریں آتی رہتی ہیں انسان درندے بنتے جا رہے ہیں ۔مجید صاحب کی آواز میں دکھ تھا ۔ایک لمحے کے لیے بشیراں کا دل کانپ گیا وہ پانچ جماعت پڑھی تھی ۔اخبار میں ایک دو سالہ بچے کی خبر تھی جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا ۔اسے مریم کی فکر ستانے لگی ۔آج سارا دن وہ کھوئی کھوئی رہی اور کئی دفعہ برتن اس کے ہاتھ سے چھو ٹتے چھوٹتے بچے۔اس کا دل وسو سوں سے ہول رہا تھا ۔جلدی جلدی کام نبٹا کر اس نے کھانا لیا اور گھر کی راہ لی ۔تقریبا دوڑتے ہوئے اس نے گھر کا فاصلہ طے کیا ۔دروازہ بند تھا اس نے بے تابی سے دروازہ بجایا تھوڑی دیر بعد قدموں کی چاپ سنائی دی اور مریم نے دروازہ کھول دیا اسے ٹھیک ٹھاک دیکھ کر بشیراں نے فرط محبت سے اس کا منہ چوم لیا اور گلے لگا لیا ۔مریم نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔اور اس کے ہاتھ سے ٹفن لے لیا اماں کھانا دو ۔رات کوبشیراں نے بہت سوچا اور ایک فیصلہ کر لیا ۔
صبح اس نے مریم کو نہلا کر صاف کپڑے پہنائے اور ساتھ لے گئی ،مریم بہت خوش تھی وہ ہر گذرتی چیز کو خوش ہو کر دیکھتی ۔بیگم صاحب نے اسے دیکھ کر ناک بھوں چڑھائی بشیراں تمھیں منہ کیا تھا نہ پھر اسے کیوں لے آئی ہو ؟ بیگم صاب معاف کرنا مگر میں اس کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی زمانہ خراب ہے کیسے بچی کو شام تک اکیلے چھوڑوں ۔آپ بھی ایک ماں ہیں جیسی بھی ہے ہے تو میری ااولاد ،بشیراں کے مضبوط لہجے میں ایک ماں بول رہی تھی جو اپنی اولاد کے لیے دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرانے کا عزم رکھتی ہو ،بیگم صاحبہ اس وقت تو چپ کر گئی مگر شام کو اس نے بشیراں کو نوکری سے جواب دے دیا ۔بشیراں نے اپنی ہتھیلی پہ دھرے پیسوں کو دیکھا اور خاموشی سے گھر چل دی ۔چند دن کی بھاگ دوڑ کے بعد اسے ایک ہاسٹل میں ملازمہ کی ملازمت مل گئی ہاسٹل میں پندرہ لڑکیاں تھیں جن کے کمروں کی صفائی ستھرائی اور ان کا کھانا بنانے کی ذمہ داری تھی تنخواہ بھی معقول تھی سب سے بڑی بات وہ مریم کو ساتھ لا سکتی تھی وہ سارا دن مریم کے آگے پیچھے رہتی ۔لڑکیاں اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتیں اور اسے پگلی کہتیں ۔مریم بھی مست اللہ لوک تھی اسے کیا فرق پڑتا تھا ۔
وہ بس اس میں خوش تھی کہ یہ باجیاں اسے کھانے کو ٹافیاں دے دیتی ہیں اور اپنے پرانے کپڑے بھی ۔ہاسٹل مین ایک نئی لڑکی آئی شانزے نام کی اس کا تعلق کہاں سے تھا کوئی نہیں جانتا تھا وہ خود بھی صبح نکلتی اور شام کو آتی نہ کسی سے بول چال نہ بات چیت بس خود اپنے کمرے تک محدود رہتی حتی کہ کھانا بھی اپنے کمرے میں منگوا کر کھاتی ۔اس روز مریم کو بشیراں کہیں دکھائی نہ دی تو وہ اس کی تلاش میں ہر کمرے میں جھانک رہی تھی وہ شانزے کے کمرے میں داخل ہوئی ۔میری اماں کدھر ؟ اس نے نیل فائل کرتی شانزے سے پوچھا ۔شانزے نے اچٹتی سی نظر اس پہ ڈالی پھول دار شلوار قمیص میں ایک جھلی سی لڑکی کھڑی تھی ،شانزے نے کیوٹکس لگا کر ہاتھوں پہ پھونک مارتے ہوئے مریم کو مخاطب کیا ادھرآئو یہاں بیٹھو ۔مریم جھجکتی ہوئی اندر آگئی اور کھڑی ہوگئی ۔ بیٹھو ابھی آتی ہیں تمھاری اماں ۔لو یہ سیب کھائو ۔
شانزے نے ایک سیب مریم کی طرف بڑھایا ،مریم غالبا بھوکی تھی سیب کھانے لگی ،شانزے اس کا غور سے جائزہ لے رہی تھی ۔اور اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہی اس نے اندازہ لگایا کہ مریم مکمل ابنارمل نہیں بس ذہنی طور پہ کمزور ہے ۔اس کی باتیں بچگانہ تھیں ۔جبکہ صحت اب کچھ بہتر ہو گئی تھی ۔دن گذرتے گئے مریم اب ذیادہ تر شانزے کے پاس پائی جاتی بشیراں اس کی طرف سے بے فکر تھی وہ سارا دن کام میں لگی رہتی ۔شانزے نے مریم کے بالوں کی کٹنگ کی تو اس کا حلیہ ہی بدل ڈالا وہ پہلی نظر میں ٹھیک لگتی جب تک بات نہ کرتی ۔بشیراں شانزے کی احسان مند تھی کہ وہ اس کی بیٹی پر توجہ دے رہی ہے شانزے نے بشیراں کو بتایا کہ وہ ٹھیک ہو سکتی ہے ایسے بچوں کے اسپیشل اسکول ہوتے جہاں ان کو تعلیم دی جاتی ۔وہ اس کا داخلہ ایسے ہی اسکول میں کروا دے گی بشیراں بے حد خوش ہوئی اس نے آج نیا سوٹ پہنا کر مریم کو تیار کیا اور شانزے کے ساتھ روانہ کر دیا
Girl Sleeping
۔دوپہر ہو گئی تھی وہ زرا کمر سیدی کرنے لیٹی اس کی آنکھ لگ گئی ۔آنکھ کھلی تو شام سے پہ تھی وہ بھاگم بھاگ کھانا پکانے میں جت گئی ۔رات کے آتھ بج گئے نہ مریم لوٹی نہ شانزے ۔تب بشیراں کا دل ہولا اس نے ہاسٹل کے منتظم کو بتایا شانزے کا بتایا گیا پتہ بھی غلط نکلا ،فون بھی بند ملا ۔بشیراں کا رو رو کر برا حال تھا سب کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں مگر کوئی سرا ہاتھ نہ آیا ۔ دو ہفتے بعد اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر لگی بچیوں کی سمگلنگ میں ملوث عورت پولیس کو چکما دے کر فرار ہو گئی تفصیلات کے مطابق ش نامی عورت بچیوں کو بہلا پھسلا کے اغوا کر کے داد ِعیش کے لیے بیرون ِملک اسمگل کرتی تھی ،مذید اس کی تلاش جاری ہے