تحریر: محمد ثاقب شفیع دنیا بھر کے تمام ترقی پذیر ممالک میں لوکل گورنمنٹ کا نظام انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس نظام کے بغیر ترقی کی منزل کو پانا اور ملک میں موجود نچلے درجے کے بنیادی مسائل کا حل کرنا نہ ممکن سمجھا جاتا ہے اسی لیئے تو امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،اٹلی و دیگر یورپی وایشائی ممالک میں مقامی حکومتوں کے نظام پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی ہے تاکہ عوام تک بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے ایک بہترین حکمت عملی بنائی جائی جس سے عوام کا حکومت پر اعتماد مزید بلند ہو سکے ۔ دنیا میں موجود بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جن کے لوکل گورنمنٹ کے نظام پر بات کی جائے تو انکے نظام کی اس قدر خوبیاں نظر آتی ہیں کہ اگر کوئی خامی ہو تو اسکو نظر انداز کرنے کو خود ہی دل کرتاہے لیکن میرا مقصد دنیا کے مقامی حکومتوں کے نظام پر بات کرنا نہیں بلکہ پاکستان میں اس وقت اس نظام کی اہمیت اور افادیت کو بیان کرنا ہے ۔
یہ نظام پاکستان میںکوئی نیا نہیں ہے جو ہمارے حکمران اس کے بارے میں جانتے نہیں یا یہ اس نظام سے نا واقف ہیں حقیقت میں یہ نظام بر صغیر پاک وہند میں مقامی حکومتوں کا نظام سب سے پہلے برطانیہ کی حکومت نے 1843 میں سندھ میں اور1849 میں پنجاب میں متعارف کروایا جس کا مقصد بر صغیر میں نیچلے درجے تک عوامی رائے کو سمجھنا اور انکے مقامی مسائل کا حل کرنا تھا تاکہ عوام میں برطانیوی حکومت کے بارے میں صحیح تاثر پایا جائے اس کے علاوہ یہ نظام علاقہ میں موجود افسر شاہی کے کرتوتوں کے بارے میں سنٹرل حکومت کو مطلع کرنے کے لیئے بھی خاصی اہمیت کا حامل تھا اسی کی وجہ سے عوام برطانیوی حکومت سے براہ راست مخاطب ہو سکتی تھی حتیٰ کہ بر صغیر کے معاملات میں جب انتظامی امور میں کوئی بیگاڑ پیدا ہوتا تو مقامی نمائندے پنچائیت سسٹم کے ذریعے مسائل کا حل بخوبی تلاش کر لیتے تھے ۔
Ruler
یہ نام نہاد حکمران جو بیرونی طاقتوں کے طابع غلامی کے تلوے چات رہے ہیں انکی سوچ یہ ہی ہے کہ پاکستان کی عوام بھی انہیں کے غلام بن کر رہ جائیں تاکہ جس غلامی کے طابع یہ حکمران چل رہے ہیں اسکا بدلہ عوام سے لیا جائے ۔بات کہیں دوسری طرف نہ نکل جائے بد بخت لوگوں کا ذکر کرنے کے بہت سے مواقع اور بھی آتے رہتے ہیں لیکن اب بات لوکل گورنمنٹ کے نظام کی کرتا ہوں حکمران اب بھی اس نظام کو لانے کا نہیں سوچ رہے تھے پر وہ کیا ہے کہ جب جوتے پڑے تو منہ کالا مطب صاف ظاہر ہے کہ جو قوتیں پاکستان میں فوجی نظام کے خاتمہ کی بانی تھیں انہوں نے اس سسٹم کو بھی دوبارہ بحال کرنے کی قسم کھائی تھی لہذٰا میرے بھائی یہ نہ سمجھنا کہ یہ جو لوکل باڈیز کے الیکشن پہلے کے۔پی۔کے میں ہوئے ہیں تو پی۔ٹی۔آئی نے بہت اچھا کام کیا ہے
نہیں جناب یہ سب بھی ہمارے پورانے خیرخواہوں کی بدولت ہوا ہے اور اب جو سارے ملک میں یہ الیکشن ہوئے ہیں توکیا اسکا مطب ہے کہ اقتدار کے پوجاریوں نے اپنی ہوس ختم کردی ہے اور وہ عوام تک اس اقتدار کو پہنچانے کیلئے اب اس الیکشن کو کروا رہے ہیں؟نہیںجناب اسکا ایک اور بھی پس منظر ہے یو۔ایس۔ایڈنے لوکل گورنمنٹ کے الیکشنز کروانے میں مسلسل 10سائیکز میں فنڈنگ کی ہے اس کے علاوہ اور بہت سی NGO’S وINGO’S نے بھی اس کے لیئے اس ملک میں انویسٹمنٹ کی ہے جس کے نتیجہ میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن پہلے کے۔پی۔کیمیں ہوئے کیونکہ وہاں جہانگیر ترین صاحب کی حکومت ہے ان فنڈنگزکا نتیجہ بھی انہوں سب سے پہلے دے کر سوشل سیکٹر کی عزت افزائی کروائی اور اس نظام کی اہمیت اور اسکو جمہوری نظام کا حصہ بنانے کیلئے کی گئی بیرونی انوسیٹمنٹ کو عملی جامہ پہنا کر باقی صوبوں کو چیلنج بھی کیا۔
Local Elections
ایک بات تو سیدھی سی ہے اس میں کوئی رائے اور نہیں ہے کہ عوام یہ سمجھے کہ حکمرانوں نے بلدیاتی الیکشنز کا انعقاد پاکستان کے وسیع تر مفادمی ںکیا ؟یہ بات بالکل غلط ہے حقیقت میں ان الکشنز کا انعقاد بیرونی دبائو اوراس کیلئے کی جانے والی ختیر فنڈنگز کی بابت ہوا ہے یہ جمود کے مارے ،ذہینی انتشار کے حامل ،عقل و دانائی سے محروم شر پسند حکمرانوں کا ایک انتہائی پریشان کن فیصلہ تھا جس پر عمل درآمد کروانے کیلئے سات سال سے زائد کا عرصہ لگ گیا ۔
بد قسمتی سے پاکستان میں اس نظام کو ہمیشہ فوجی حکمرانوں نے اپنے دور حکمرانی کا حصہ بنایا، اس بارے میں میں نے کئی سیاستدانوں سے سوال دریافت کرنے کی کوشش کی تو انکا جواب تھا کہ فوجی حکمران ہمیشہ اپنے اقتدار کی سیڑھی کو مضبوط بنانے کے لئے عوامی ہمدردی لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ایک ایسا تاثر پیدا کیا جائے کہ عوام فوجی حکومتوں کی دل دادہ ہے ۔خیر جہاں بات ہوگی پاکستان کی تعمیر کی ،ترقی کی اور خوشحالی کی تو وہاں بلدیاتی نظام کی شمولیت کے بغیر یہ سب نہ ممکن ہے، پاکستان میں مقامی حکومتوں کا نظام سب سے پہلے ایوب خان کے دور میں متعارف کروایا گیا بعد ازاں یہ نظام ایوب خان ،ضیاالحق، پرویز مشرف کے ادوار میں کافی پروان چڑھا لیکن جمہوری حکومتوں کے نزول کے بعد پھر سے لوکل گورنمنٹ کا نظام نہ لایا گیا جس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس نلک میں عام عوام کی حکمرانی کے تصور کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔
Pakistan
اسی تناظر میں جب وسیم امتیازصاحب سے بات ہوئی جو کہ پاکستان بھر میں NGO سیکٹر میں کام کرر ہے ہیں جن کی سیاست اور اسکے معاشرہ میںپیدا ہونے والے تاثرات پر گہری نظر ہوتی ہے جو کہ عام آدمی کی سوچ سے ہر شب و روز واقف ہوتے ہیں انکا کہنا تھا کہ وسائل کی نیچلی سطح تک منتقلی صرف لوکل گورنمنٹ کے نظام کو ہر جمہوری دور کا حصہ بنانے پر ہی ممکن ہو سکتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اس نظام نے دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک میں اپنی ایک خاص اہمیت حاصل کر رکھی ہے میں انکی اس بات سے متفق ہوں جیسا کہ عام شخص تک حکومتی وسائل کی منتقلی کا سب سے اچھا طریقہ لوکل گورنمنٹ سسٹم ہی ہے جس کی بدولت عام شخص اس نظام کا حصہ بن کر اپنے علاقہ کے مسائل کو پر امن طریقہ سے حل کروا سکتا ہے جو کہ بیچارے اقتدار کی حوس کے مارے حکمرانوں کی قطعی نہ پسند ہے۔
پاکستان میں اگر مدت تلک اس نظام کی کوئی قدر نہ تھی پر اب اس نظام کو ہر صورت یقینی بنیاد پر چلنا چاہیے، چاہے جمہوری دور ہو یا فوجی دور ہو جوکہ اس ملک کی قسمت بن چکا ہے لیکن عام عوام کی حکومت کو چلتے رہنا چاہیے جس سے عوام کے درمیان جو تفریق پیدا ہو چکی ہے اسکو ختم کیا جائے ۔ا بھی ابتدائی مراحل میں اس نظام کو قائم کرنے میں جومشکلات پیش آئی ہیں ان کی وجہ سے لوکل گورنمنٹ کا نظام ابھی اتنی اہمیت کا حامل نہیں جتنا کہ ترقی پذیر ممالک اس سے استفادہ اٹھا رہے ہیں لیکن عام عوام کی حکومت میں شرکت اور انکے چنائو کردہ ممبرز کے ذریعے مقامی مسائل کے حل کی طرف پہلی سیڑھی ضرورثابت ہو سکتا ہے اس طرح لوکل گورنمنٹ کا نظام مستقل بنیادوں پر عوام کے مسائل کے حل ،وسائل کی تقسیم اور حکومتی اداروں کی کار کردگی بہتر بنانے میں معاون کار ثابت ہوگا اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ کی لوکل گورنمنٹ کے الیکشنز کی بدولت بہت سے نئے سیاستدان ابھر کر سامنے آسکتے ہیں جو کہ موجودہ ضمیر فروش سیاستدانوں کی دوکانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کروا کر نظریاتی و حقیقی سیاست کو فروغ دے سکتے ہیںجس کی بدولت پاکستان کی حقیقی معنوں میں تشکیل ممکن ہوسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اس نظام کو اپنائے ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک قوم بن کر اپنے مسائل اور مصائب کا حل کرتے ہیں۔