تحریر: سجاد گل میرے نانا حضور فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو کوئی بھی پرشانی لاحق ہو تو اسے اپنے آپ سے کہہ دینا چاہئے ٫٫چلو کوئی گل نی، ، یہ جملہ پرشانی کو ختم تو نہیں کر سکتا البتہ پرشانی پر ہونے والے ملال کو کم ضرور کر دیتا ہے، میرے خیال میں نعیم ہزاروی بھی میری طرح اس جملے پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں، پہلی دفعہ جب میں نے اس جملے کو عملی جامہ پہنایا وہ قصہِ درد بھی آپ کی نذر کر دیتا ہوں،م یرا ایک بہت پرانا دوست ہے جب ہمارا میٹرک کا رزلٹ آیا تو میں پاس ہو گیا اور میرا دوست فیل ہو گیا۔
مجھے اسکے فیل ہو جانے پر دلی دکھ ہوا،میں نے محسوس کیا کہ میرا دوست بھی پرملال لگ رہا ہے، میں نے اسے تسلیاں دینا شروع کر دیں،یار تم اتنی سی بات پر دل چھوڑ بیٹھے ہو، تم تو بہت دلیر ہو تین ماہ کی بات ہے Supple میں پیپر کلئیر ہو جائے گا اور ویسے بھی یہ چیزیں تو Parts of Life ہیں ، اور تم تو ایسے پرشان ہو رہے ہو جیسے کوئی بہت بڑی قیامت آ گئی ہو، اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور چلا کر کہا ارے کمینے مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں کہ میں فیل ہو گیا ہوں بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ تو پاس ہو گیا ہے۔
میں نے یہ جملہ سنا تو میرے پائوں تلے سے جیسے زمین سرک گئی ہومجھے برسوں کی پرانی دوستی مکڑی کا جالا محسوس ہونے لگی اور اس دوستی کی حثیّت کھل کر سامنے آ گئی ، اس دن میں نانا جی کے اس جملے پر عمل پیرا ہوا تو اندازہ ہوا اس جملے کی تاثیر واقعی بہت بابرکت ہے ٫٫چلو کوئی گل نی،، سوچا ہی تھا کہ مجھے اپنا درد ہلکا محسوس ہونے لگا۔
Life
اپنے اس تجربہ کی بنیاد پر میں اپنے پاکستانی بھایئوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ وہ اس جملہِ با برکت پر عمل پیرا ہوکر ذیادہ سے ذیادہ استفادہ حاصل کریں، کیوں کہ پاکستان کے حالات اور حکمرانو ں کی کرم فرمائیوں کے سبب اہلِ پاکستان کافی مایوس نظر آتے ہیں،مسائل کو تحریر کیا جائے تو ایک تحویل فہرست وجود میں آ جائے گی،مگر میں چیدہ چیدہ کا ذکر کر کے ٫٫چلو کوئی گل نی ،، کو آگے بڑھاتا ہوں۔
کہیں پیٹرول کا مسلہ ہے کہ علمی منڈی میں قیمتیں کم ہونے کے باوجود فائدہ عوام الناس تک نہیں پہنچ رہا،،خیر ۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،بجلی کی آنکھ مچولی ایک طرف اور بجلی کے بلوں میں اضافہ دوسری طرف،چچا شیدے کی تنخواء ١٢٠٠٠ اور بجلی کا بل ١٥٠٠٠ ، جائیں تو کدھر جائیں۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،زرداری اور نواز کی سیاست کا مک مکا ایک طرف اور کرپش کی داستانیں دوسری طرف،ہمت ہے تو کراس کر ،ورنہ برداشت کر۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،آصف علی زرداری جیسا شخص اس ملکِ خدا داد کا صدر بن بیٹھا،جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،ملک سے محبت کا دعویٰ اور انڈیا سے مدد کی اپیل،جئے متحدہ۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،سرکاری سکول میں بھینس اور بکریاں،جناب ایسا بھی ہوتا ہے۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،کہیں حج کرپش کی افسانے کہیں مسجدوں پر قبضے، ہمیں معلوم ہے جنت کی حقیقت کیا ہے جی بہلانے کیلئے غالب یہ خیال اچھا ہے۔
Issues in Pakistan
چلو کوئی گل نی، ،کہیں لاکھوں روپے کے ایک دانت کی کہانی تو کہیں لاکھوں روپے کی ایک ماہ کی چائے کا بل ، یاد آئے ہمیں وہ بچھڑے زمانے کیا کیا۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،آگے چلیں،سندھ کے علاقے گھوٹکی میں ڈاکوئوں کا احتجاج ،وجہ یہ کہ پولیس بطورِ بھتہ ایک لاکھ ماہوار مانگ رہی ہے ،اور کاروبار میں مندا ہے۔
عجب عجب ہیں ہر سو داستانیں بہت۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،دودھ میں بال صفا پائوڈر ، شیمپو اور نیل کی ملاوٹ، خنزیر اور گدھے کا گوشت،کھانے کے تیل میں کیڑوں کی چربی،جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،١٠٠ روپے کا موبائل کارڈ لوڈ کرنے پر ٢٥ روپے نامعلوم ٹیکس کاٹ لینا اسکے بعد ہر کال پر بھی ٹیکس ، فسانہ تیری آوارگی کا سر سے اوپر نکلا۔ ٫٫چلو کوئی گل نی، ، ایک طرف یہ دلفریب باتیں کہ اس ملک میں آئین اللہ تعالی اوراس کے رسول ۖ کے بتائے ہوئے احکامات کے عین مطابق ہو گا ، اور دوسری طرف سود کا نظامِ بد، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،قائداعظم سے لے کر علامہ اقبال تک،نظریہِ پاکستان سے لے کر آئین پاکستان تک ، سب متنازع کر دیا گیا۔
بدبختی کی انتہا ہوگئی۔٫٫چلو کوئی گل نی، ،کہیں باشا ڈم کے راستے میں روڑے اور کہیں کالا باغ کی مخالفتیں۔سکون راحت کا ادھر کام نہیں ۔٫٫چلو کوئی گل نی، ، بلکہ اسکے علاوہ ، اذان بج رہا ہے سے لے کر،قرآن کے چالیس سپاروں تک،جنازے کی چار رکعتوں سے لے کر ،حضرت عمرۖ تک( صحابی کے ساتھ ۖ نہیں بلکہ رضی اللہ عنہ آتا ہے) اسلامی شریعت کا مذاق اڑانے سے لے کر حقوقِ نسواں بل تک،ہاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا۔٫٫چلو کوئی گل نی۔
Sajjad Gul
تحریر: سجاد گل dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009 D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi