تحریر : فہد چوہدری پاکستانی کرنسی کے اتاڑ چڑھاوًپر بات شروع کرنے سے پہلے کچھ تاریخی پس ِ منظر جاننا ضروری ہے ۔ قیام ِ پاکستان کے وقت یہاں برٹش کرنسی کا نظام رائج تھا ۔ 1948 ء میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی کرنسی چھاپی گئی ۔ کسی بھی کرنسی کو چھاپنے سے پہلے اس کی بیک پر ریزرو (reserve)رکھا جا تا ہے ۔ جو ذیادہ تر سونا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر حکومت ِ پاکستان ایک لاکھ 1000کے نوٹ چھاپنا چاہتی ہے تو اس کی بیک پر 100,000000کا سونا ہونا لازمی ہے ۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے یہاں بغیر کسی ریزرو یا پھر ریزر (reserve)کی کچھ تناسب کے حساب سے سونا رکھا جا تا ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری کرنسی کی ووقت ختم ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ پاکستان کے ہر کرنسی نوٹ کے اوپر کے اوپر لکھا جاتاہے کہ ‘ حامل ہذا ‘ کو مطالبہ پر ادا کریگا ۔ یہ حکومت ِ پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا ‘ کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نوٹوں کی مد میں رزرو سونا بینک دولت پاکستان مطالبہ پر ادا کرنے کا مجاز ہے ۔لیکن افسوس کہ ستم ظریفی کا عالم دیکھئے کہ ہمارے مطالبے پر ہمیں رزرو سوناادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستا ن کے ریزرو میں چھاپے گئے نوٹوں کی مقدار میں سونا موجود نہیں ہے۔
اب ذکر کرتے ہیں کہ پاکستانی نوٹوں کی اشاعت کا، تو حکومتِ پاکستان نے پہلی بار 2,5,10 اور 100روپے کے کرنسی نوٹ 1948 ء میںچھاپے جس پر سٹیٹ بینک کے پہلے گورنر محمد ایوب کے دستخط شائع کے گئے تھے ۔بعد ارزاں میں 2روپے کا نوٹ 1953ء میں متعارف کروایاگیا اور 50 روپے کا نوٹ 1957 ء میں متعارف کروایا گیا ۔ اس دور میں پاکستان کی کرنسی کافی مستحکم تھی کیونکہ بغیر گولڈ ریزرو کے نوٹ چھاپے نہیں جاتے تھے مارکیٹ میں نوٹوں کی سرکولیشن بہت کم تھی جس کی بنیاد پر مہنگائی کم بلکہ اگر کہا جائے کہ نہ ہونے کے برابر تھی تو شائد غلط نہ ہوگا ۔ جوں جوں حالات بدلتے گئے پاکستان کے 1970ء کے بعد ریزرو پر فیصد کے فارمولے کے تخت نوٹ چھاپنے شروع کیے ۔جس کی بنیاد پر پاکستانی کرنسی کی قدر روز بروز گرتی گئی لیکن کرنسی کی قدر گرنے میں نوٹ چھاپنا صرف بنیادی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔
1986ء میں پاکستان نے 500روپے کے نوٹ کی اشاعت کی اور پھر اس کے اگلے ہی سال 1987ء میں حکومت ِ پاکستان نے 1000روپے کا نوٹ متعارف کروا دیا۔ نوٹوںکی اس اندھا دھند اشاعت کی وجہ سے مہنگائی جیسے طوفان کا پاکستان میں باقاعدہ آغاز ہوا ۔ یہ اس حد تک بڑھا کہ 2006ء میں پاکستان نے 5000روپے کے نوٹ کا اجرا کئے ۔ بعدازاں 1,2,5 روپے کے نوٹ کو بند کرنا اور ان کے مقابلے میں سکوں کا اجرا اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے اور اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت ِ پاکستان 10,000روپے کے نوٹ کے اجراء کے متعلق سوچ رہی ہے ۔ جو کہ ہماری عوام پر ایک بہت ظلم ہے ۔ یہ تو تھا کرنسی نوٹوں کا تاریخی پس ِ منظر اب یہاں یہ بھی ضرروری ہے کہ کرنسی ایکسچینج کے متعلق تاریخ کے اوراق کھولے جائیں تا کہ پتہ چل سکے کہ اپنی کرنسی کو ڈی ویلیو کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔ قیام ِ پاکستان کے وقت ڈالر صرف 2 روپے میں میسر تھا۔ 1955ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں ڈالر پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں 4.70روپے کا ہو گیا ۔ جنرل ایوب خاں کے دور میں ڈالر کی قیمت 4.76پر مستحکم رہی جو کہ پاکستان کا ایک سنہری دور تھا ۔ جیسے ہی پہلی جمہوری حکومت آئی۔
Zulfiqar Ali Bhutto
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ڈالر کی قیمت بڑھ کر 11 روپے ہوگئی ۔ جنرل ضیاء کے دور میں ڈالر18.65تک پہنچ گیا ۔ یہی وہ دور تھا کہ جس میں حکومت ِ پاکستان نے 500اور 1000 روپے کے نوٹ متعارف کروائے ۔ اس کے بعد ڈالر کی قیمت بڑھنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ آج ڈالر 105 روپے میں فروخت ہو رہا ہے ۔ جوں جوں ڈالر مظبوط ہوتا ہے ہماری روپے کی قدر گرتی چلی جاتی ہے ۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ دراصل پوری دنیا میں ذیادہ تر تجارت ڈالر کی مد میں کی جاتی ہے اس لئے کسی بھی ملک کے لئے ڈالر بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ تجارتی زبان میں درآمدات اور بر آمدات کے لین دین میں ڈالر کی ضرورت پیش آتی ہے ۔اور اگر ڈالرز کی ادائیگی میں کچھ کمی رہ جائے تو ادائیگی پوری کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ڈالرز کی صورت میں کسی دوسرے ملک سے قرضہ لے لیا جائے اور دوسرا اپنی کرنسی کو ڈی ویلیو کر کے امپورٹ اور ایکسپورٹ کو برابر کیا جائے۔
لیکن ان دونوں عوامل سے نقصان صر ف عوام کا ہوتا ہے کیونکہ قرضہ کی بمع سود ادائیگی کے لئے عوام پر ٹیکس لا گو کر دیئے جاتے ہیں یا پھر اپنی کرنسی کی قدر گرا کر نئے نوٹ شائع کئے جاتے ہیں افسوس کہ دونوں صورتوںمیں نقصان بیچاری عوام ہی کا ہوتاہے ۔ دراصل پاکستان ایک کم ترقی یافتہ ملک ہے اور کم ترقی یافتہ مما لک میں سیاسی نظام زرا کمزور ہوتاہے ۔آئے دن حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں یہاں جمہوریت کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ایک شیر خوار بچے سے کم نہیں ۔ ہمارے سیاست دان بدعنوان ہیں جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور اس کے بعد رہی سہی کسر ہمارے سرکاری محکمے پورے کر دیتے ہیں جہاں غبن ، رشوت اور بدعنوانی ایسے عام ہے کہ جیسے لاہورکی سڑکوں پر دھول ۔ جب تک ہمارے ملک سے چور بازاری اور بلیک مارکیٹنگ کا صحیح معنوں میں خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ہمارا سار ا نظام اور معشیت لڑکھڑاتی رہے گی۔
اس لئے میری حکومت ِ وقت سے گذارش ہے کہ خدارہ ہماری معصوم عوام پر ظلم بند کریں اور مزید قرضے لینے سے حتیٰ الامکان گریز کریں ۔ اس وقت اگر ضرورت ہے تو وہ یہ کہ سب سے پہلے قرضہ جات سے چھٹکارہ حاصل کر کے عوام میں خوشحالی لائی جائے ۔ بے شک سود ایک لعنت ہے ہمیشہ اس سے بچیں ۔ میرے اس کالم کا مقصدحکومت پر تنقید کر نا ہرگز نہ تھا بلکہ صرف اس کا اہم مقصد عوام تک مفید معلومات پہنچانا تھیں کہ آخر یہ سب نظام کیسے چلتا ہے ۔ میرے حکمرانوں سے گذارش ہے کہ خدا کے لئے ہمارے پیارے وطن کی عوام کو قرضوں کے بوجھ تلے نہ مزید نہ دبائیں اور سب سے اول یہ کہ سود کی لعنت سے نجات دلائیں ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک اس ملک کو ترقی کی راہو پر گامزن کرے ۔ آمین ۔ پاکستان زندہ باد۔