تحریر: رضوان اللہ پشاوری دسمبر کا مہینہ تھا،سردی اپنے کمال کو جا پہنچی تھی،میں ایک چادر اڑے ہوئے اپنے تعلیمی ادارہ جامعہ علوم القرآن پشاور سے باہر نکل گیا تو دیکھا کہ رنگ روڈ پر گاڑیوں کی ایک بیڑھ ہے،میں حیران،انگشت بدنداں کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا،میرے ساتھ میرے استاد محترم وشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد شعیب صاحب بھی تھے،ایمبولنس کی آوزیں بھی بہت زیادہ تھی،ایک ایمبولنس اس طرف جارہا تھا تو دوسرا اُس طرف جا رہا تھا،میں نے حیران گی سے ایک دوست سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے،۔
اس نے افسردگی سے کہا کہ آپ توخواب خرگوش میں سوئے ہوئے ہیں ،آپ کو ابھی تک پتا بھی نہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہاہے اور کیوں ہو رہا ہے؟میں نے کہا نہیں جناب مجھے تو اس بارے میں کچھ علم بھی نہیں تو اس نے مجھے ایک نہ مٹھا دینے والا غم سُنا دیا کہ آج صبح سے آرمی پبلک سکول میں چند لوگ گھس گئے ہیں اور بچوں پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں تو میں فوراً اپنے تعلیمی ادارے میں داخل ہو گیااور فوراً انٹر نیٹ پر نیوز لگا کر بیٹھ گیا،جیسے ہی نیوز چینل لگ گئی تو اس پر ایک عجیب وغریب داستانِ غم شروع تھا۔
Mother
،بس میں نے نیوز چینل بند کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گیا کہ پتہ نہیں ان بچوں میں سے کون کون آج کس کس امید سے اپنے گھر سے نکلے ہوئے ہونگے،امی جان نے اس کو کیسے رخصت کیا ہوگا اور کس بہانے سے رخصت کیا ہوا ہوگا،کیونکہ بعض بچے پڑھتے نہیں ہیں تو اماں جان اس کو بہانے بنا بنا کر سکول رخصت کر دیتی ہے ،میرا اپنا ہی ایک واقعہ ہے کہ میں ایک دفعی سکو جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ،میں نے امی جان کو بہانا بنایا کہ آج میرا طبیعت بہت خراب ہے میں آج سکول نہیں جا سکتا امی جان نے کہ ٹھیک ہے۔
بیٹا جب طبیعت خراب ہے تو پھر سکول مت جائے دو تین منٹ کے بعد امی جان کہنے لگی کہ بیٹا اچھے بچے سکول سے غیر حاضری نہیں کرتے اور آپ تو بہت ہی اچھے بچے ہیں جب میں نے یہ سُنا تو جلدی سے اپنے بیگ میں کتابیں رکھ کر کپڑے تبدیل کرنے کے لیے گیا اور چند منٹ میں کپڑے تبدیل کر کے سکول روانہ ہو گیا،جب چھٹی کے بعد گھر آگیا تو والدہ نے کہا کہ آپ جب سکول میں اچھے نمبرات سے پاس ہو جاؤگے نا تو میں آپ کو مدرسہ میں دخل کراکر حافظ قرآن بناؤں گا،ویسے بھی مجھے حافظ قرآب بننے سے بہت شوق تھا تو اس کے بعد میں نے کبھی بھی سکول سے چھٹی نہیں۔بات کہاں سے کہاں چل پڑی ،آپ کو یہ بتا رہا تھا،کہ پتہ نہیں آرمی پبلک سکول کے ان بچوں کو بھی ماؤں نے کس بہانے سے رخصت کیا ہوگا۔۔
Black Day
16 دسمبر انسانیت کا ایک تاریک دن تھا۔ آخر یہ حالات اور واقعات کب تک رہے گے ، ؟ اسی محب وطن اور نڈر و بے باک لوگوں اور وطن عزیز کے اس مستقبل کے معماروںکو کیوں اتنی بے دردی سے شہید کیا جاگیا؟ان ہی حالات کی روک تام کے لیے حل چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں بلسان نبی ۖ نازل ہوا ہے اور اس میں اسی حالات کو بچانے کا ایک قاعدہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو قتل کر لیں تو اس کے قصاص میں اسکو قتل کیا جائے تو پھر کوئی انسان ایسا نہیںہوگا کہ بے جا کسی نفس ِ عمارہ کا خون بہائے کیونکہ اسکو اپنے نفس کی پڑے رہے گی یہاں تک کہ قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے ۔
کہ جان کے بدلے جان کو مار دیا جائے، آنکھ کے بدلے آنکھ کو ، ناک کے بدلے ناک کو ، کان کے بدلے کان کو ، دانت کے بدلے دانت کو مار دی جائے یہاں تک زخم میں بھی قصاص ہو گا اس کے علاوہ اور یہ ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو بے جا قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا ، پوری انسانیت کو بچا لینے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان ایسے حالت زار میں ہے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہے اور اسی حالت میں کوئی دوسرا مسلمان بھائی اس کے کام آجائے اور اسی کے ذریعے وہ انسان موت کی گھاٹ سے نکل جائے تو گویا کہ اس نے اس انسان کو نئی زندگی عطاء کردی ۔
Bomb Blast
اصل انسانیت بھی یہی ہے کہ انسان دوسرے انسان کی جان ، مال اور آبرو کا محافظ ہو اگر انسان کسی دوسرے انسان کو کوئی ٹیس پہنچائے اور اسے تکلیف زدہ کردے تو اس سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ آج ہی دیکھا جائے تو پوری انسانیت کے ساتھ آگ و خون کی ہو لی کھیلی جا رہی ہے اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، ایسے ناسازگار حالات بنے ہوئے ہیں کہ انسان جب کسی جم غفیر میں گھیر ہو جاتا ہے تو دل دھڑکتا ہے کہ کہی بم بلاسٹ نہ ہوجائے اور میرے زندگی کا چراغ گل نہ ہو۔ پرانا زمانہ کتنا پرسکون تھا ہر طرف امن ہی امن تھا نہ اتنے بم دھماکے اور نہ اتنے مسائل ۔پتہ نہیں آج کیا ہو گیا کہ قدم قدم پر بم بلاسٹ ہو جارہے ہیں اور بے گنا ہ مسلمان مارے جارہے ہیں یا ہمارے وطن عزیز کو نظر بد لگ چکی ہے یا اغیارکی سازشیں ہیں۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ پاکستان کے بننے کے بعد شروع دن سے وطن عزیز کو دشمنوں کی طرف سے ہر طرف سازشیں ہو رہی ہے اور دشمن ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جو وطن عزیز کے منہدم ہو نے کا ہو ۔
آج ملک خداداد میں جتنے بھی حالات خراب ہیں اور ہر طرف بدامنی اور بد نظمی کی فضاء ہے تو اس میں دشمن کی برابر کا ہاتھ ہیں۔ اگر ہم کراچی ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے حالات پر طائرانہ نظر دوڑائے تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ ان شہروں میں جو قتل عام ہو رہا ہے اگر ایک طرف اس میںہمارے لوگوں کی نادانی ہے تو دوسری طرف ان شہروں میں حالات خراب کرنے میں دشمن کی سازشیں بھی شامل ہے۔ وطن عزیز کے موجودہ حالات بہت پر آشوب ہیں ، آئے روز بم دھماکوں نے زندگی بے چین کر رکھی ہیں اور بم دھماکوں کے نتیجے میں انسانوں کے جانوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ، ہر طرف لہو کا ماحول بن چکا ہے ایسے نامساعد حالات میں ہر محب وطن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وطن عزیز کی تعمیری ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور وطن عزیز کو دن دگنی رات چگنی ترقی پر گامزن کرنے کے لیے اپنی توانائیاں بروئے کار لائیں، یہی موجودہ حالات کا منطقی نسخہ ہے اور اسی نسخہ سے ہم ان کھٹن حالات سے نکل سکتے ہیں ورنہ دوسرا راستہ اختیا ر کرنا ہمارا کھلم کھلا غلطی ہوگی۔ جب تک ہم میں سے ہر کوئی وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لیے ذاتی طور پر عقیدت مند نہ ہو اس وقت تک حالات سدھر اور ٹھیک نہیں ہوگے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔