تحریر: میر افر امان نواز شریف اور مودی کی پیرس میں ملاقات کے بعد عالمی طاقتوں کی مداخلت پر اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے انعقاد کے بعد بھارت کی سشماسوراج صاحبہ اور پاکستان کے سرتاج عزیز صاحب میں ملاقات ہوئی۔نواز حکومت کی یہ تو کامیابی ہے کہ دنیا کے لیڈروں کو اسلام آباد میں بلا کر افغانستان کے حل کے لیے سوچ بچار کی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت سے بھی مذاکرات ہوئے جس سے دنیا پر یہ بات واضع ہوئی کہ پاکستان بھارت سے کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات سے حل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت پاکستان کے اہلکاروں کی ملاقات میں پاکستان نے کیا حاصل کیا اور کیا کھویا اس پر بات ہونی چاہیے۔ اس پر بات کرنے سے قبل ہم جب پاکستان بن رہا تھا ایک تاریخی بیان جو بھارت کے( مرحوم) گاندھی صاحب نے دیا تھا کو تحریر کرتے ہیں تاکہ بات واضع ہو جائے۔ گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان بن جانے کی مجھے فکر نہیں جتنی پاکستان کے بن جانے کے بعد اس کے افغانستان اور اس سے آگے مسلمانوں کے سمندر سے مل جانے کی فکر ہے۔ گاندھی کو اس امر کا بخوبی علم تھا کہ برصغیر پر حکومت کرنے والے مسلمان اسی علاقے سے حملہ آور ہوئے تھے۔ جب پاکستان اس کا حصہ بن جائے گا تو بھارت کے لیے ایک مستقل خطرہ رہے گا۔
گاندھی کے اسی ڈاکٹرئین کے تحت بھارت نے افغانستان سے دوستی کی پھیگیں ملائیں تھیں۔انگریز نے افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لین کا معاہدہ کیاتھا ایک تو اس سے انگریز روس اور برصغیر کے درمیان بفر زرون قائم کرنا چاہتا تھا تو دوسری طرف دو ملکوں کے مسلمانوں کے درمیان ایک مستقل لڑائی کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ پاکستان بننے کے فوراً بعدبھارت افغانستان میں طالبان حکومت بننے تک سرحدی گاندھی غفار خان کی قوم پرست جماعت کے ساتھ مل کر پختونستان کا مسئلہ کھڑا کیا رکھا تھا۔ بھارت نے افغانستان میں کافی سرمایا کاری( انوسٹمنٹ) کی تھی اب اُ س میں مزید اضافہ کیا ہے۔بھارت ہی پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات پیدا کرنے والا ایک ملک ہے۔بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ متعدد کونسل خانے قائم کئے ہوئے ہیں جہاں سے پاکستان کے خلاف پرتشدد کاروائیں کر رہا ہے جس میں ١٦دسمبر آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ بھی ہے۔بھارت تو مستقل پاکستان پر دبائو بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور پاکستان خواب غفلت میں مصروف اس کی پالیسیوں کو سمجھ نہیںرہا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس کا مشترکا اعلامہ جاری ہوا کہ دنیا افغانستان کی سلامتی اورخود مختیاری کا حترام کرے۔ طالبان سمیت سب کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔
Afghanistan ,Pakistan
مذکراتی عمل جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے شروع کیا جائے۔ پاکستان افغانستان الزام تراشیوں سے گریز کریں، افغانستان میں تعمیر نو کے لیے رکن ممالک سے کردار کی درخواست بھی کی گئی۔ افغانستان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دہشت گردوں کی مالی معاونت ختم کرنے کی بات کی۔ خطے میں پائیدار امن کے لیے مستحکم افغانستان ناگزیر ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے اُس نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شمولیت کر کے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان کے متعلق کوئی بھی فیصلہ ہوتے وقت اُس کے افغانستان میں اپنے مفادات کو یقینی بنا لے۔اس کے ساتھ ساتھ اُس نے پاکستان بھارت ملاقات میں پاکستان پرممبئی ہوٹل حملے، جو کہ اُس کا خود برپا کردہ ہے میں مبینہ تور پر ملوث پاکستان میں موجودلوگوں کو قرار واقعی سزا دینے کا وعدہ کروالیا۔جبکہ اس کے توڑ میں پاکستان نے بھارت کو پاکستان میں مداخلت کے ثبوت نہیں پیش کیے، نہ ہی سمجھوتا ایکسپریس اور مسئلہ کشمیر پر کوئی بات ہوئی۔گو کہ سشماسوراج اور سرتاج عزیز ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر،سیاچن سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات پر بات ہو گی۔مذاکرات کا طریقہ کار سیکرٹری خاجہ طے کریں گے۔ عوامی رابطوں میں اضافہ اور دہشت گردی کا خاتمہ اور تجارتی تعلقات مستحکم کریں گے۔ صاحبو! برصغیر کی دو قوموں میں تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کم و بیش ١٥٠ سے زائد بار مذاکرات ہو چکے ہیں۔
پاکستان نے توتقسیم کے بعداپنے حصے کے اثاثوں پر بھی زور نہیں دیا تھا۔بھارت کے کشمیر کو طاقت کی بنیاد پر قبضہ پر ہی بات کرتا رہا۔ جب پاکستان کی فوجیں سری نگر کے قریب پہنچنے لگیں تو بھارت خود اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے گیا تھا اور ساری دنیا کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خوداداریت کا موقعہ دے گا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ مگربھارت کے حکمران ہمیشہ جعلی مذاکرات کا ڈول ڈال کر آہستہ آہستہ دنیا کے سامنے اپنے وعدے کو پس پشت ڈال دیا اور آج تک کشمیر پر قابض ہے۔ کبھی کشمیر میں جعلی انتخابات کروا کر کہا کہ کشمیریوں نے اپنی رائے کا اظہار الیکشن کے ذریعے کر دیا ہے کہ وہ بھارت کا حصہ ہیں۔ کبھی کہا اور پھر آج تک کہہ رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔بڑھتے بڑھتے بات یہاں تک پہنچا دی کہ مذاکرات کرنے ہیں تو پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر ہونگے ۔ اور بھارت تو اب یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کرا رہا ہے اس پر بات ہو سکتی ہے ۔اسی کی آڑ میں کراچی ،فاٹا اور بلوچستان میں اپنی مداخلت کا جواز پیدا کر رہا ہے۔
Zulfiqar Ali bthu
ہمارے حکمرانوں کی کمزور سیاسی بصیرت کی وجہ سے وہ کشمیر میں اپنے قدم مضبوط سے مضبوط تر کرتا گیا۔ پہلے١٩٦٥ء میں پاکستان کے قادیانی جنرل اور ذوالفقار علی بٹھو کی سازش کے تحت بغیر مناسب منصوبہ بندی کے ڈکٹیٹر ایوب خان نے مجائدین کو کشمیر میں داخل کیا جس پر بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا یہ تو ہماری بہادر فوج کی شہادت کی تمنا تھی کہ وہ بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر ان کو عبرت ناک شکست دی تھی۔ پھر ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں لین آف کنٹرول پر بھارت کو خار دار دیوار بنانے کی اجازت دی تھی۔پھر آوٹ آف بکس فارمولہ پیش کر کے مسئلہ کشمیر پرپسپائی اختیار کی گئی۔ پاکستان کو بھی کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی لیے بھارت پر دبائو میں رکھنے کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے تھے۔ مگرجب بھارت سکھوں کے خالصتان کے معاملے میں پھنسا ہو اتھا (مرحوم) بے نظیر صاحبہ نے سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں بھارت کو دے کر اسے آسانی پہنچائی۔
پسپائی کی انتہا جہاں تک تھی کہ راجیو گاندھی کی پاکستان آمند پر راستے سے کشمیر کے بورڈ تک ہٹا دیے تھے۔نواز شریف صاحب کہتے رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کو صرف ایک لکیر نے علیحدہ کیا ہوا ہے ورنہ ہم دونوں کی تہذیب اور کلچر ایک ہے کیا یہ مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کی نفی نہیں؟۔ مسئلہ کشمیر کوایک طرف رکھ کر آلو پیاز کی تجارت شروع کرنے کی باتیں کی۔
Pakistan
ثقافتی اور کلچر کے لیے وہاں کے گانے بجانے والے اور فلم کے ہیروں کو پاکستان میں بلایا۔صاحبو! پاکستان کو مذاکرات میں سب سے پہلے بھارت سے کشمیر کو متنازہ مسئلہ تسلیم کروانا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوں صرف اور صرف ایک نکاتی ایجنڈے کشمیرپر اور اس میں کشمیریوں کو بھی شامل کروانا چاہیے ۔مذاکرات کشمیر میں رائے شماری پر ہو ں اس کا وعدہ نہرو نے ساری دنیا کے سامنے کیا تھا۔ اسی کے لیے اقوام متحدہ بھی پابند ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اور کئی بار اقوام متحدہ اپنی ہی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کرائے۔
جیسے اقوام متحدہ نے انڈونیشیا کے جزیرے اور سوڈان کے ایک حصے کو علیحدہ کر کے دو آزاد ملکوں کو وجود بخشا تھا ایسا ہی کشمیر میں رائے شماری کروا کے کشمیریوں کو بھی اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق دے یہ اقوام متحدہ پر قرض ہے۔ کشمیری تو ہر موقعہ پر پاکستان کے جھنڈے لہرائیں ،پاکستان کے ساتھ ملنے کا عید کریں ایک لاکھ شہید ہو جائیں، بیس ہزار عزت مآب کشمیری عورتوں کی بھاتی فوج اجتماہی آ رو زیزی کرے، کشمیر میںشہیدوں کے کئی قبرستان بن جائیں، کشمیریوں کی ا جتماہی قبریں دریافت ہوں، ہزروں کشمیری لاپتہ ہو جائیں، ہزاروں بھارت کی جیلوں میں قید ہوں، ہزاروں نوجوانوں کو بھارتی فوج نے اپائج بنا دیا ہو، اُن کی پرائپرٹیوں کو گن پائوڈر ڈال کر جلادیا جائے، اس کی باغات کو تباہ بربا کر دیا جائے، اُن کے مذہی اختیار ذبردستی چھین لیے جائیں وہ جمعہ کی نماز بھی نہ پڑھ سکیں، نہ گائے کا گوشت کھا سکیں اور پاکستان اتنی قربانیاں دینے والوںکو مذاکرات میں بھی نہ شامل کروا سکے تو ایسے مذاکرات میں پاکستان کی پسپائی ہی ہے تو اور کیا ہے؟