تحریر : ذیشان حسین 16دسمبر2014کا دن سنتے ہی آپ سب بلا تا خیر جان گئے ہونگے کہ میں تاریخ کے کس سیاہ ترین دن کی با ت کر رہا ہو ں ،خاص طور سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ برا دن ،وہ دن جس میں معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا ،وہ معصوم بچے جو گھروں سے اسکول کے لئے تیار ہوکر گئے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ تیاری انکی زندگی کی آخری تیاری ہے ،نہیں جانتے تھے کہ آخری بار اپنی ماں کے سینے سے لپٹیں گے،جنہیں معلوم نہیں تھا کہ ماں کے آنچل کی جو خوشبو وہ محسوس کر رہے ہیں اب دوبارہ ان کا مقدر نہیں ہوگی ۔ جس ماں کا چہرہ اب وہ دیکھ رہے ہیں دوبارہ اس کی سعادت نصیب نہیں ہوگی، جس راہ پر وہ جارہے ہیںوہاںسے واپسی کی کوئی امید نہیں ہے ، خونخوار بھیڑیئے ان معصوم بچوں کے خون کے پیاسے ہیں ، یہ جانوریہ وحشی جو انسانیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں جن کی پیاس ان بے گناہ بچوں کے خون سے مٹے گی،جو دہشت گردی کا مطلب تک نہیں جانتے تھے ایک دن خود اس دہشت گردی کا شکار ہو جائیں گے۔
کیا مائوں نے اس دن کے لیے اپنے خون سے ان بچوں کو سینچا تھا ؟کیا اس دن کے لئے یہ مائیں اپنے بچوں کو پروان چڑھا رہی تھیں کہ اسکول میں گئے یہ بچے نعشوں کی شکل میں خون سے لت پت واپس آئیں گے ؟کیا اس دن کے لئے مائوں نے اپنے لعلوں کو یونیفارم پہنا کراسکول بھیجا تھا کہ اب وہ نہیں ان کی خبر آئے گی ؟کیا اس دن کے لئے یہ بچے پرورش پارہے تھے کہ ایک دن وہ بنا کسی جرم ،سزا کے مستحق قرار دے دئیے جائیںگے؟اور سزا بھی ایسی کہ انسان کا انسانیت پر سے یقین ہی اٹھ جائے ،ایسی المناک اور ہولناک سزا جسے صرف سن کرہی رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔
جن مائوں اور بچوں نے ظلم کی انتہا سہی اس حالت ،اس کیفیت ،اس صورتحال کو تصور کرنا تو کجا اس ایک لمحے کا اندازہ کرنا بھی انسانیت کے لئے ممکن نہیں ۔اپنے جگر گوشوںکو خون میں لت پت دیکھ کر مائوں پر کیا گزری ہوگی،بلکہ گزری کیا گزر رہی ہے ،رہتی سانس تک اس کیفیت کو بھلا نہیں سکتیں ،چاہ کر بھی غم کی اس کیفیت سے خود کو نکال نہیں سکتیں۔کیا آپکو معلوم ہے اس ایک گھڑی میں کتنی جانیں گئیں؟کتنی مائوں کی کوکھ ہمیشہ کے لئے سونی ہوگئیں؟کتنے گھروں کے آنگن ویران ہوگئے؟کتنی مائوں کی یہ خواہش ،خواہش ہی رہ گئی کہ انکا بیٹا یا بیٹی ڈاکٹر یا انجینیئربن کر قوم وملک کی خدمت کرینگے؟کتنی مائیں اس دن سے لے کر آج تک سکون کی نیند نہیں سوئیں ؟کتنے والدین ایسے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اولاد کی نعمت سے محروم ہوگئے ؟کتنے والدین نے اپنے بچوں کو اس ڈر سے اسکول سے ہٹوادیا
Crying Women
کتنے والدین ذہنی امراض میں مبتلا ہو گئے ؟یہ جومیں تھوڑا سا بیان کر رہا ہوںیہ ان بچوں کے بارے میں ہے جو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ،آئیے تھوڑابہت اب ان بچوں اور گھرانوں پر نظر ڈالتے ہیں جو جان سے تو بچ گئے مگر انکی بقیہ زند گی اب انکے کسی کام کی نہیں۔کسی کی ٹانگیں کام نہیں کرتیں،کسی کے بازوںاورکسی کے ٹانگیں،بازوں دونو ںکام نہیں کرتے ،کسی کی دونوں آنکھیں ضائع ہوچکیںتو کسی کا چہرہ مفلوج ہو چکااور کئی تو ایسے ہیں جو ابتک قومہ سے ہی باہر نہیں آسکے ۔ ان بچوں کی کیسی کیسی حالتیں ہیں کیسی زندگی وہ گزار رہے ہیں انکا حال کیا بیان کروں ،میں بیان کر ہی نہیں سکتا میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہیںجو انکے درد،تکلیف اور پریشانی کی ترجمانی کر سکیں۔
16دسمبر ،سن کر آپ کے ذہنوں میں کیا صرف سانحہ پشاور آیا ہے ؟جی نہیں یہ 16دسمبر کا نام سنتے ہی آپ کے ذہن میںفوراْسے پہلے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن آگیا ہوگا جب پاکستان اپنے ایک بڑے حصے سے الگ ہوا تھا ۔جی ہاں میںمشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) کی بات کر رہا ہوں ،آپ سب جانتے ہی ہیں کہ بھارت کی سازشوں اور حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ہم اپنے ملک کا ایک بڑا حصہ گنوا بیٹھے ہیںجب تک قائداعظم محمد علی جناح زندہ رہے ان کے غیر معمولی اثرورسوخ کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے لوگ بھی کچھ کر نہ سکے
لیکن ان کی وفات کے فوری بعد بھارت کی مکروہ سازشیں اور سر توڑ کوششیں کھل کر سامنے آئیںاور انہوں نے مشرقی پاکستان کے باسیوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیا ،کیونکہ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ بھارت پہلے دن سے ہی پاکستان کی آزادی کے خلاف تھا اور آج تک ہے تو جیسے ہی اس نے پاکستان کی قیادت کو کمزور پڑتے دیکھا اس نے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر اتار دیں اور 16دسمبر 1971کو مشرقی پاکستان کو الگ کروانے میں کامیاب ہو گیا ،پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا آج ہم جس پاکستان میں رہ رہیں ہیں یہ اس وقت مغربی پاکستان کہلاتا تھا۔ آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر جسم کے دو حصے کر دئیے جائیں تو جسم کا کیا حال ہوتا ہے؟
India
بھارت کی مکروہ چالوں نے بھی پاکستان کا حال ایسا ہی کر دیا ہے پاکستان کا ایک اہم ترین حصہ پاکستان سے جدا کردیا گیا ۔مشرقی پاکستان کو جدا ہوئے 44سال کا عرصہ پورا ہونے کو ہے اور پشاور اٹیک کو پورا ایک سال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن دنیا کے رہتے کیا ہم کبھی ان واقعات کو بھلا سکتے ہیں ؟پاکستان کا ایک اہم ترین حصہ جو سازشوں کی بھینٹ چڑھ گیا جس کا کوئی بدل نہیں ۔کیا کبھی ہم ان مائو ں کے بیٹے واپس لا سکتے ہیں؟ بھارت نے ابھی بھی اپنی ان سازشوں اور مکروہ چالوں کونہیں چھوڑا،پشاورسانحہ میں بھی را ملوث ہے ،پشاور اٹیک سے کچھ دن پہلے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیراجیت کمار دوول کچھ دن پہلے ہی
افغانستان کا دورہ کر کے آتے ہیں اور دورے کے چند روز بعد ہی معصوم اور بے گناہ بچے جن کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ صبح گھر سے تعلیم حاصل کرنے نکلے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ یہ صبح ان کی زندگی کی آخری صبح ثابت ہوگی۔ GHQپہ حملہ ہویا پھر پشاور آرمی سکول پر حملہ’ یہ لوگ اپنی پوری تیاری کے ساتھ آتے ہیں یہ کسی عام دہشت گرد کا کا م نہیں یہاں تک کہ ان کے پاس سیکیورٹی یونیفارم اور اندر کی پوری رپورٹ ہوتی ہے کہ کون سی اشیاء کہاں پڑی ہیں ۔بھارت پاکستان بننے کے حق میں ہی نہیں تھا تو وہ کیونکر اپنی ان ناپاک حرکتوں سے باز آجائیگا؟ہمارا دین امن کا دین ہے
امن اور سلامتی کا سبق دیتا ہے اور ہمارے پیارے وطن کی بنیاد ہی اسی بات پر رکھی گئی تھی کہ ہم لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے امن چاہتے ہیں ،ایک ایسی سر زمین چاہتے ہیں جہاں پر کسی بھی شخص کو کسی بھی قسم کی پریشانی نہ ہو،تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنی اپنی عبادات میں کسی قسم کی پریشانی اور تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔