تحریر: کوثر ناز کہتے ہیں دسمبر جدائی کا مہینہ ہے،دسمبر کا نام سنتے ہی سبھی کے غم تازہ ہوجاتے ہیں، کہ دسمبر ہجرکے ماروں کا مہینہ لگنے لگتا ہے،دسمبر کے حوالے سے سبھی کے اپنے غم اپنی یادیں ہوتی ہیں، یہ غموں کی آگ اور یادوں کی آندھی قابل برداشت نہیں ہوتی، مگر ایک غم ایسا گزرا ایک سانحہ ایسا رونما ہوا، جو کسی ایک کا نہیں تھا،اس سانحے میں خالق حقیقی سے جاملنے والوں کی یاد میں ان کے ہجرمیں پوری قوم جل رہی ہے، سولہ دسمبر کو پشاور میں رونما ہونے والا دلخراش سانحہ پوری قوم پر گزرنے والا مشترکہ سانحہ تھا،سانحہ پشاور صرف اے پی ایس میں شہید ہونے والے معصوم پھولوں کے والدین کے لئیے اذیت و تکلیف کا باعث نہیں تھا بلکہ اس سانحے میں جو غم گذرا وہ پوری قوم پر گذرا تھا۔
پوری قوم کی آنکھیں نم تھی اور بے طرح سے نم تھی اور آج بھی انکو یاد کریں تو نمی کو برقرار پاتے ہیں اور یہ نمی کبھی خشک نہیں ہو سکتی ہے ان معصوم اور کھلتے پھولوں کی شہادت کے بعد جو جنون قوم میں بیدار ہوا اسکا توڑ پاکستان و علم کے دشمن نہیں نکال سکتے کہ ان معصوموں کی زندگی جو اپنی زندگی کی خوبصورتی محسوس بھی نہ کر پائے تھے اتنی بے وقعت نہیں ہے کہ ہم اسے بھول جائیں اے دشمنوں ! یاد رکھو ہم ہمیشہ لڑیں گے. سبھی کے علم میں یہ بات ہے کہ سانحہ پشاور کو گذرے ایک سال چلا ہے مگر آج بھی اس حادثے کی یاد ، والدن کی چینخ و پکار انکی آہ و بکا ان کے آنسوؤں کے مناظر نگاہوں کے سامنے آجائے تو آنکھیں دھندلا سی جاتی ہیں ، آج بھی وہ حادثہ روز اول کی مانند تکلیف دہ ہے۔
APS Shaheed
ان معصوم بچوں کے گذرے کا حادثہ کچھ دن پرانا لگتا ہے اور زخم تازہ ہیں غم نیا ہے کہ وہ وار علم دشمنوں نے ان پھولوں پر کیا تھا جو باغ کو رونق بخشتے ہیں اور علم کے اجالے سے اس باغ کو روشن کرتے ہیں ، دہشتگردوں نے پاکستان نامی باغ پر شب خون تھا اس باغ کے معصوم پھولوں ننھی نازک کلیوں کو نوچ ڈالا تھا جو علم کی شمع جلا رہے تھے انہیں بجھا دیا انہوں نے پاکستان سے دشمنی نہیں نکالی بلکہ قوم میں ایک جذبہ اسقدر حاوی ابھار دیا کہ جو کبھی مانند نہیں پڑ سکتا انہوں نے پوری قوم کو اپنا دشمن کر کے اپنے ہی خلاف نیا محاظ کھول لیا اور قوم میں ایک نئی روح پھونک دی. سانحہ پشاور پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہی لگتا ہے ، ہر محب وطن کے دل میں جو آگ جل رہی ہے وہ قطعی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی ہے۔
اسکا دہکاؤ ہمیشہ جلتا رہے گا وہ خواب جو ان معصوموں کی آنکھوں میں تھے وہ بجھا دیئے گئے ایک طالبعلم ہونے کی حیثیت سے اگر میں اپنی بات کروں تو میری آنکھوں میں ہزاروں خواب روشن ہیں کسی ایک کی بھی قربانی سخت عذاب لگتی ہے اسقدر خواب میری آنکھوں میں ہیں کہ باخدا میں راتوں کو آنکھ کھلنے پر بھی انکی قبولیت کی دعا مانگتے خود کو پاتی ہوں میرے دن رات انہی کے تانے بانے میں گذرتے ہیں تو جب میں اپنے ایک خواب سے دستبرداری اختیار نہیں کرسکتی اور اگر میری ہستی مٹا دی جائے تو وللہ کیا قیامت نہ ہوگی میرے آس پاس کے لوگوں کے لئیے جو میری آنکھوں میں ان خوابوں کو روشن دیکھتے ہیں تو کیا یہ سانحہ نہیں ہوگا ؟ تو پھر ہم خون کے آنسو کیوں نہ روئیں جو ہمارے قوم کے بچوں کی اتنی دنیائیں آجڑ گئیں، بچوں کی معصوم فرمائشیں دم توڑ گئی کھلتی کلیوں کو نوچ ڈالا ، ابھرتے پھولوں کی آنکھیں تاعمر کے لئیے بند کردی سو یوں یہ دل روتا ہے۔
Nation
خون کے آنسو روتا ہے اور بے تحاشہ روتا ہے.اے دہشتگردوں ! دیکھو تم نے کیا کیا ، تم نے سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑ کر جگادیا ہے نہ صرف جگا دیا ہے بلکہ نئی روح پھونک دی ہے ہمیں بتا دیا ہے کہ بتا دیا ہے کہ ہم ایک تھے ہیں اور رہیں گے کہ فرقہ واریت میں بٹنے سے پاک، جب جب وطن عزیز کو ہماری ضرورت ہوگی ہم سب یکجا ہوں گے ہم سب ساتھ ہوں گیکہ قوم پر جو بھی گذرے گا سب ساتھ سہیں گے سنو اے دشمنوں پاکستان ایک جسم ہے اور ہم اسکے اعضاء کہ ایک حصہ تکلیف میں ہوگا تو باقی بیٹھ کر تماشہ نہیں دیکھیں گے بلکہ درد کی دوا دھونڈ نکالیں گے یہ پیغام ان دشمنان پاک کے بھی نام ہے جو فرقہ واریت فساد پھیلا کر پاک وطن کی جڑیں کمزور کرنے خواب دیکھتے ہیں۔
سانحہ پشاور نے جہاں قوم کو ایک ساتھ گھڑا کردیا ہے وہی سندھی ، بلوچی ، پنجابی یا پشتو بولنے والوں کی تمیز ختم کرکے پاکستانی ہونے کے جذبے کو بھی ابھار دیا ہے اور یہی وہ جیت اور کامیابی ہے جو تمھارے لعنت برستے چہروں پر تمامچے کی مانند پڑی تھی.اے دشمنوں ! اب دیکھو کہ جس باغیچے پر تم نے شب خون مارا تھا وہ آج بھی سر سبز ہے ، تم نے ہمارے پھولوں کو نوچ ڈالا تھا اب دیکھو اور ہزاروں پھول ہمارے باغیچوں میں اپنی تمام تر روشنی و چکا چوند کے ساتھ کھڑے ہیں، تمھیں ٹکر دینے کو تیار ہیں، تم کتنے چراغ گل کرو گے اگر تم اس غلطی میں ہو کہ ہوا بن کر چراغ بجھا دو گے تو بغور سنو تم چاہو بھی تو تم مکمل ہستیاں تباہ نہیں کرسکتے ، تم انکی بنیاد نہیں ہلا سکتے کہ یہاں جذبے شدید ہیں تم پھول نوچو گے تو اپنے ہاتھ شدید زخمی کر لو گے اور پھر کسی قابل نہیں رہو گے اس کی واضح مثال ہے کہ سال مکمل ہونے سے پہلے ہی تمھارے چار ساتھیوں کو تختہ دار پر لٹکا کر غریق جہنم کر دیا۔
APS Shuda Blood
تم اس قدر نااہل ہو کہ تم بس ہلانہ جانتے ہو گرانے کی اہلیت ناپید ہے تم لوگوں میں ، وہ کام تو ہمارے ننھے پھول کر گئے ہیں کہ تمھاری ہستی مٹادی اور خود مٹ کر بھی زندہ جاوید بن گئے، سلام ان بچوں کو جو وطن عزیز کے باسیوں کو پھر ایک گئے کہ ان کا درد ہر دل محسوس کرتا ہے سلام ان والدین کو جن کے بہادر سپاہیوں نے ہمت و جرت کی نئی مثال قائم کردی سلام ان والدین کو بھی جو اپنے بچوں کو پھر سے اسی درسگاہ بھیج رہے ہیں جہاں علم دشمنوں نے خوف بٹھانے کی کوشش کی تھی ان بچوں کی ہمت کو سلام جو ضد کرکے اسکول لوٹے ہیں . اے ننھے فرشتو! ہم کبھی تمہیں نہیں بھلا پائیں گے کہ جو حیات قوم کو ملی ہے تمھاری بدولت ہے کہتے ہیں کہ۔ شہید کا جو خون ہے قوم کی زکوٰة ہے شہید کی جو موت ہے قوم کی حیات ہے سلام تمام شہدائے پشاور و لواحقین شہدا کو.