تحریر : خواجہ وجاہت صدیقی ایک چینی کہاوت ہے کہتے ہیں ایک بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دوگھڑے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی، ان دو گھڑوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا تھا، ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے گھڑے کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا، جبکہ دوسرے گھڑے کا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا، ثابت گھڑے اپنی کام سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس، حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہامیں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے
گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا کہ یا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جس طرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا، مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے، اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں، ان دو سالوں میں، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا ہے، اگر تم میرے پاس نہ ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نہ پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے،چند ہفتے قبل میں نے خصوصی افراد سے متعلق اپنی ایک تحریر اسی صفحہ قرطاس پر اتاری تھی مجھے میرے بہت سارے دوستوں نے حوصلہ بخشا اور اپنی رائے سے بھی مستفید کیا
اسی دوران مجھے ان ہی خصوصی افراد میں سے یاسر امین سکنہ حدوبانڈی نے ایک خط لکھا،جسے پڑھنے کے بعد میں تلملا اٹھا ہوں،ہم لفظوں کو جوڑنے والے بنیادی طور پر حساس ہوتے ہیں ،میں نے اپنے اسی کالم میں خصوصی افراد سے متعلق اپنے احساسات کو بیان کیا تھا،مگر معاشرے کا جو ظلم ان ہی خصوصی افراد سے ہوتا ہے وہ میں خود بیان کرنے سے تو رہا مگر یاسر امین نے جو کچھ کہا میں ہو بہو اسے نظر قارئین کرتا ہوں اور فیصلہ بھی اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ معاشرتی ناہمواریوں اور خصوصی افراد کیساتھ برپا ان زیادتیوں کو جانچ کر یاسر امین جیسوں کو ان کا قصور بتلائیں۔۔۔کہ کیا معذور ہونا جرم ہے،،؟یا اس بے حس معاشرے میں معذور کی کوئی عزت یا مقام ہی نہیں؟جناب خواجہ وجاہت صدیقی صاحب گزشتہ دنوں آپ کا کالم خصوصی افراد سے متعلق پڑھا،تحریر کی حد تک واقعی خوشی ہوئی مگر میں بھی ان ہی افراد میں شمار ہوں جن کا آپ نے اپنے کالم میں ذکر کیا تھا
Handicapped Day
جناب ماہ رواں3 دسمبرکو معذوروں کا عالمی دن بڑی دھوم دھام سے پاکستان میں منایا گیاسرکاری سطح پر تقریبات کا اہتمام ہوا ،ریلیاں نکالی گئیں،ارباب بست و کشاد نے تقاریر کیں،معذوروں کیساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کیا اور یوں نشستاً ،گفتاً اور برخاستاً ہو گیا،کہیں بھی معذوروں کی فلاح و بہبود ان کے روزگار اور معاشرے میں باعزت جینے کا کوئی اہتمام نظر نہیں آیا،ماسوائے اس کے کہ ہر سال کی طرح مجھ جیسے جسمانی معذور جو بھلائی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ان کی بہتری کی کوئی سبیل نظر آئی ہو ،مگر افسوس یہ انتظار بھی مزید انتظار کی نظر ہوگیا،میں عرصہ18سال سے جسمانی معذور ہوں ،والدین اور معاشرے پر اپنے آپ کو بوجھ تصور کرتے کرتے اب نفسیاتی طور پر معذور ہوتا جا رہا ہوں اور ایبٹ آباد میں ایک ماہر نفسیات کے زیر علاج ہوں اور مہنگی دوائیں کھا رہا ہوں،یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ میرے والدین اور بہن بھائی مجھے سہارا دیے ہوئے ہین،ورنہ کب کا میرا خاتمہ ہو چکا ہوتا ،نہ جانے میری طرح کے اور کتنے لوگ اس معاشرے میں سسک سسک کر مر چکے ہیں،اور کچھ منشیات کا شکار ہو کر گلیوں میں بھیک مانگتے اور دھکے کھارہے ہیں،کیا میرے پاکستان میں حکمرانوں اور صاحب اختیار لوگوں کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟یایہ لوگ اس جہاں میںجہاں انصاف کا دن ہوگا اور خدا کے سامنے ان کوجواب دینا ہو گا،کاش ان لوگوں کے اپنے بچے معذور ہوتے تو شاید ان کو احساس ہوتا کہ معذوری کیا ہوتی ہے؟اور وہ ماں باپ کس قرب سے گزرتے ہیں جن کے بچے معذور ہوتے ہیں،یہ مسلمانوں کا ملک ہے
کیا اسلام یہی درس دیتا ہے کہ ایک مجبور آدمی کو اپنے مسلمان ملک میں اس طرح بے یارو مددگار کر کے ذلیل و خوار کیا جائے؟؟غیر مسلم ممالک میں جس طرھ پڑھا اور سنا ہے معذوروں کو حکومت وہ سہولیات دیتی ہے کہ ان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ معذوری اور مجبوری کیا ہوتی ہے،بسا اوقات ایک احساس پیدا ہوتا ہے کہ کاش ہم معذور کسی مغربی ملک میں پیدا ہوتے تو شاید اس کیفیت سے چھٹکارا پاتے مگر مشیت ایزدی ہے جو جہاں پیدا ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے لیکن انسانوں کے بھی کچھ حقوق و فرائض ہوتے ہیں،کیا سارے ملک میں حکمران اور صاحب اختیار بے حس اور اندھے ہوتے ہیں؟اور انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس تک نہیں؟خدا تعالیٰ ضرور ان سے باز پرس کرے گا ،میں اس معذوری کے عرصہ میں بیشتر جگہوں پر نوکری،ملازمت کیلئے درخواستیں دے چکا ہوں،مانسہرہ میں کوئی ایسا محکمہ نہیں جہاں میں نے کلاس فور تک کی آسامی کیلئے درخواست نہ دی ہو،کیونکہ میں میٹرک پاس ہوں،اور باضابطہ طور پر کسی آسامی کے اشتہار کے جواب میں اپنے ایم پی اے کی وساطت سے بھی درخواستیں کر چکا ہوں مگر بے سود،کہیں بھی کسی معذور کیلئے مختص خالی آسامی پر میری تعیناتی نہ ہو سکی اور نہ ہی مجھے نوکری مل سکی،مانسہرہ کچہری میں دو سال تک ایک عرائض نویس کے پاس کام کیا
مجھے معقول یا نامعقول کچھ نہ کچھ معاوضہ ملتا رہا،اور یوں میں دماغی پریشانی سے دور رہا،پھر وہاں اس شخص کا بے روزگار بھانجا آگیا ،ظاہر ہے وہ زیادہ حقدار تھا سو مجھے چلتا کیا،ڈی سی آفس مانسہرہ میں وثیقہ نویس کے لائسنس کیلئے درخواست دی،وہ بھی تین ڈی سی صاحبان تبدیل ہو گئے مگر ان درخواستوں پر کوئی غور نہ ہوسکا اور یوں دوسال میری انتظار کی عمر میںاضافہ کر گئے،اسی طرح ڈسٹرکٹ کونسل مانسہرہ میں ایک درخواست اپنے حلقہ کے ایم پی اے سردار محمد ظہور صاحب سے ریکمنڈکراکر دی،پورا ایک سال میرے والد صاحب کے دوست سی ایم اوصاحب مجھے سہانے سپنے دکھاتے رہے ،جب بھی ہمارے گھر دعوت پر آتے تو ایک نیا بہانہ اور ایک امید دلا جاتے اور آخر کار خود ہی ریٹائرڈ ہو گئے اور میں ایک سال مزید ماضی میںدھکیل دیا گیا،پھر میں نے ڈی ایچ اوآفس مانسہرہ میں باقاعدہ مشتہر شدہ آسامی کیلئے درخواست دی جس میں معذوروں کا کوٹہ بھی درج تھا ،اس وقت کے ڈی ایچ او صاحب نے میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں کیں اور معذور دیکھتے ہی رہ گئے،خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور آج وہ بھی اپنی سیٹ پر نہیں رہے،مانسہرہ سول ہسپتال بڑا نام کنگ عبد اللہ ہسپتال میں بھی قسمت آزمائی کی،لیکن وہاں بھی میرے لیے ہسپتال تنگ پڑ گئی اور سفارشی ایم این اے اورایم پی اے کے لوگ آگئے،میرے گائوں کے مڈل سکول اور گرلز پرائمری سکول میں خالی ااسامیوں پر باہر سے ایم پی اے صاحب کے قبیلے کے لوگ آگئے ،جو سکول کاکام کم اور گھروں کاکام زیادہ کرتے نظر آتے ہیں،کیا یہ سب کچھ انصاف ہے
PTI
یا تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے عوامی خدمت ہو رہی ہے،خدا را انصاف کریں،زندگی نہایت قیمتی خدا کی طرف سے عطیہ ہے جو ایک بار ملتی ہے کہیں آپ کی غفلت اور میری نادانی سے خدانخواستہ میری آخرت خراب کر دے،اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر قیامت کے دن کا آپ بھی انتظار کریں اور میں بھی،جو شاید اب کچھ زیادہ دور نظر نہیں آتاکیونکہ معاشرتی اعتدالیوں ،زلزلے،فحاشی،بے حیائی آئے روز سیلاب اور ملک میں افراتفری ناانصافیاں یہ سب قیامت کی نشانیاں ہی تو ہیں،کیا میں آپ لوگوں سے توقع کر سکتا ہوں کی مجھے جینے کا حق دے کر کوئی روزگار مہیا کر کے معاشرے میں باعزت زندگی کا موقع دینگے؟؟؟یا یونہی تڑپ تڑپ کر مرنے کا ساماں مہیا کرینگے؟؟؟میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں اگر میری اس تحریر سے کسی بھی شخص کی دل آہ زاری ہوئی ہے تو میں معافی کا خواستگار ہوں یاسر امین ولد اختر حسین سکنہ حدو بانڈی ضلع و تحصیل مانسہرہ۔قارئین! یاسر امین یا یاسر امین جیسے کسی بھی دوسرے بھائی کے ان سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے، البتہ میں اتنا جانتا ہوں کہ دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا ہے، کوئی دولت ، شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت، بھوک، افلاس اور محکومی کے ذریعے، کوئی صحت و تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اور معذوری کی صورت میں آزمائش کا سامنا کر رہا ہے
تاہم ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے، یاسر امین میرے بھائی آپ یہ کیوں بھول رہے ہو کہ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں،اگر بڑھیا کا ایک گھڑا کسی دوسرے کیلئے خوشیوں کا ساماں بن سکتا ہے تو آپ بھی اس دنیا میں انمول ہو،فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارا واسطہ کچھ بے رحم اور بے ضمیر حکمرانوں سے پڑا ہوا ہے جن کے ضمیر کب کے سو چکے ہیں،،یاسر امینبلاشبہ ہم سب میں کوئی نہ کوئی عیب ہے، پھر کیوں نہ ہم اپنے ان عیبوں کے ساتھ، ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کو ملا کر اپنی اپنی زندگیوں سے بھر پور لطف اٹھائیں، ہمیں ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا ہے کہ ہماری خوبیاں ہماری خامیوں پر پردہ ڈالے رکھیں،،،میں آخر میں یاسر امین اور یاسر امین ہی کی طرح کے اپنے بھائیوں سے یہی کہوں گا کہ دل چھوٹا نہ کریں
یہ دنیا بہت خوبصورت ہے بس دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والی حس کو خوبصورت بنا کے دیکھیں اور محسوس کریں،،اور ہم ویسے بھی کچھ ایسی رسموں کے عادی ہو چکے ہیں جو باعث فخر نہیں باعث ندامت ہی ہیں کہ جب 65کی جنگ میں ہمارا سپاہی جس نے سیالکوٹ کے میدان میں سینہ سپر ہو کر نعرہ تکبیر بلند کر کے دشمن کے چھیتڑے اڑائے اور اپنی ٹانگ کٹوائی تھی وہ آج اسی ملک کے ایک شہر کی گلیوں میں بیگن اور ٹماٹر کا نعرہ لگاتا ہے اور لوگ اسے لنگڑا سبزی والا کہتے ہیں ،،تم غور کرو اور بتائو کہ لوگ اپنے غازی کو کیوں نہیں پہنچاتے؟؟؟ یاسر امین پھر میں اور آپ کس باغ کی مولی ہیں؟؟۔