تحریر : حفیظ خٹک شہر قائد میں بلدیاتی انتخابات اپنے اختتام کو پہنچے ، انتخابات کی تیاریوں سے لیکر اختتام تک شہر قائد میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مشترکہ دورہ کراچی کیا ۔ اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے حصے کے کام تکمیل تک پہنچائے۔ ان کے علاوہ شہر قائد میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ بھی سرگرم رہی۔ اس انتحابی معرکے میں ایم کیو ایم حقیقی بھی میدان میں اتری انہوں نے بھی بڑے پیمانے پر اپنی سیاسی سرگرمیاں کیں۔ حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے بھی اس عمل میں بھر پور حصہ لیا۔ بحر حال٥دسمبر کو یہ عمل ختم ہوا۔ ذرائع ابلاغ نے پورے معرکے کے دوران اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں ادا کرنے پوری کوشش کی۔ ہر چینل و اخبار انتخابی عمل کی خبر کو الگ ہی انداز میں بریکنگ نیوز کی صورت میں پیش کرتاجس سے دیگر خبروں پر ماند سی پڑ جایا کرتی تھی۔انتخابی عمل کے دوران اور اب تک بظاہر سبھی درست انداز میں اپنی سمتوں پر گامزن ہیں تاہم ایک موضوع ایک نقطہ ایک ذرا سی بات ایسی ہے کہ جس پر انتخابی عمل کرانے والوں سے لیکر اس عمل میں حصہ لینے والے سبھی بے توجہی کا مظاہرہ کرتے رہے۔
شہر قائد کے سب سے بڑی جماعت سے لیکر ملک کی دیگر بڑی جماعتوں تک اور ایک کونسلر سے لیکر چئیرمین کا انتخاب لڑنے والوں تک سبھی اس معاملے میں ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے۔ یہ ذرا سی بات اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہے کہ جسے امریکہ نے ناکردہ گناہوں کی سزا دیتے ہوئے ٨٦برسوں کیلئے پابند سلاسل کر دیا ہے۔ اس انتخابی عمل کے دوران کسی نے بھی اس کے متعلق بات نہیں کی۔ بلاول بھٹو نے تو آج تک اس کا ذکر نہیں کیا ۔ سراج الحق جب سے امیر جماعت اسلامی بنے ہیں انہوں نے بھی اس ذمہ داری کے بعد اور اس سے پہلے بھی قوم کی بیٹی کے گھر جانے کی زحمت نہیں کی۔ عمران خان تو وہ سیاستدان ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر بات کی تھی لیکن انہوں نے بھی اپنے اس دورے کے دوران قوم کی بیٹی کے گھر جانے یا ان بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ملنے کی زحمت نہیں کی۔ ایم کیو ایم نے ماضی میں قوم کی بیٹی کیلئے بڑا جلسہ عام کیا لیکن اس جماعت نے بھی اس انتخابی عمل کے دوران قوم کی بیٹی کے اہل خانہ سے ملنے کی زحمت نہیں کی۔
جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شہر قائد میں ہونے والے اس انتخابی معرکے دوران ، اس سے قبل اور اس کے بعد بھی قوم کی بیٹی کے معاملے کا نہ صرف ذکر ہونا چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کی جلد رہائی کیلئے جاری کاوشیں میں شامل ہونا چاہئے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس شہر کی رہنے والی ، اس ملک کی شہر اور اس قوم کی ہی نہیں اس امت کی بیٹی ہیں جو اس وقت جیل میں قید اپنی رہائی کا انتظار کر رہیں۔ انتخابی عمل کے بعد امریکی نائب وزیر خارجہ نے پاکستا ن کا دورہ کیا انہوں نے وزیر اعظم ودیگر سمیت آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں کیں ۔ انہوں دنوں بھارتی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بھی طے ہوا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نائب امریکی وزیر خارجہ دورہ پاکستان سے قبل بھارت کے کے دورے پر دو روز رہے ۔ ان کا یہ دورہ مخصوص انداز میں رہا۔ یہ بات بھی ایک مقامی اخبار کے ذریعے سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے اس دورے کے ذریعے کچھ مقاصد حاصل کرنے تھے جس کیلئے بھارتی و پاکستانی حکومتوں کو راضی کیا جانا ضرور ی تھا۔
Pakistan
وہ بنیادی نکات جو پاکستان کے سامنے رکھے گئے اور جس میں پاکستان حکومت کی موجودگی ازحد ضروری تھی کچھ اس طرح سے ہیں کہ وہ طالبا ن سے مذاکرات میں مددچاہتے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی لشکر طیبہ کے خلاف کاروائی و کرپٹ سیاستدانوں پر ہلکا ہاتھ اور داعش کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ دار قرار بنوانا چاہتے تھے۔ امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہی بھارت کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف جاری اپنے روئیے میں تبدیلی لائیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل دوبارہ سے آغاز کرنے کیلئے ہی سہی دوروں کے ساتھ نرم راویہ اپنائیں۔امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بالاآخر بھارت کو عملدرآمد پر آمادہ کر دیا۔نائب امریکی وزیرخارجہ نے اپنے ،مقاصد کی تکمیل کیلئے بھارت کو دوروزہ کامیابی سے مکمل کیا ۔اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی وزیرخارجہ نے گذشتہ دنوں ایک کانفرنس میں پاکستانی وفد سے ملاقات کی جو کہ دراصل امریکی مفادات پر آمادگی کا اظہار تھا۔ دورہ پاکستان کے دوران امریکی وزیرخارجہ نے پاکستان کے سپہ سالار سے بھی ملاقات کی۔ امریکیوں نے ملکی رہنمائوں سے ملاقاتوں کے دوران طالبان کے ساتھ لشکر طیبہ کا ذکر زیادہ کیا۔ جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جیسے امریکہ کے منہ میں بھارت کی زبان آگئی ہے۔
امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان میںجو سیاستدانوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیںان میں بھی کمی لائی جائے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کا نقصان برپا ہوگا اور اس عمل سے پاکستان میں عدم استحکام بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے تمام مطالبات کو پاکستان نے نرم زاویئے سے دیکھا تاہم ایک مطالبہ جو داعش کے خلاف جاری عالمی تحریک میں پاکستان کی بھرپور شرکت سے متعلق تھا ، پاکستان نے اس مطالبے کو یکسر ماننے سے انکار کر دیا ۔ یہ بھی واضح رہے کہ امریکہ نے اپنے تمام مطالبات کو تسلیم کئے جانے پر مالی مفادات کی پیشکش کی۔امریکہ جو ایک جانب خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتا ہے اس کے باوجود اس کے اپنے ملک میں انسانوں کے ساتھ بسا اوقات غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے دو بڑے ایٹمی قووتوں کو مذاکرات پر مجبور کرتا ہے ۔ دونوں ملکوں کو ان کے مفادات کے حوالے سے نکات ان کے سامنے رکھتا ہے جس کے باعث وہ ممالک اپنے مفادات کیلئے امریکہ کی تجاویز پر عملدرآمد کر تے ہیں۔
١٢دسمبر کو ہونے والی ایک بین القوامی کانفرنس میں شرکت کیلئے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان بھارت کا دورہ کرتے ہیں اور دورے کے پہلے روز ہی وہاں کے وزیر اعظم انہیں ملاقات کا شرف دیتے ہیں۔ جبکہ ٹی وی چینل کے لائیو پروگرامات میں بھی عمران خان شریک ہوتے ہیں جہاں ان سے حافظ سعید کے حوالے سے بھی بات کی جاتی ہے ۔ تاہم اس ایک بات سمیت عمران خان میزبان کی کسی بھی بات کو ان کی مرضی کے مطابق جواب دینے سے گریز کرتے ہیں جس سے بھارتی رویہ پر ایک خزب اختلاف کے رہنماء کی شخصیت مزید کھل کر سامنے آتی ہے۔ اس دورے میں عمران خان سے ان کے دور کے نامور کرکٹر ملاقا ت کرتے ہیں اور عمران خان بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان مذکرات سمیت کرکٹ کی بحالی پر بھی زور دیتے ہیں۔
Imran Khan and Narendra Modi
امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورہ مکمل ہوا اس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ کا دورہ بھی کامیاب رہا ۔ عمران خان کا دورہ بھارت بھی پایہ تکمیل کو پہنچا ان سب دوروں ، ملاقاتوں اور مذاکرات پر آمادگی کے باوجود ایک نقطہ یہاں بھی توجہ کا منتظر رہا یہ نقطہ ڈاکٹر عافیہ کاذکر اور اس کی رہائی اور جلد واپسی کا ہے ۔ امریکہ نے اپنے مفادات کیلئے اپنے نائب وزیر خارجہ کو پاکستان کا دورہ کروایا اور بھارت نے بھی اپنے مفادات کے حصول کیلئے اپنے خاتون وزیرخارجہ کو پاکستان کا دورہ کروایا لیکن پاکستان نے اپنے مفادات کیلئے دونوں ملکوں کے سامنے نجانے کیا مطالبات رکھے ۔ امریکہ کے سامنے تو پاکستان کو اپنی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے بات رکھنی چاہئے تھی۔جو کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے نہیں رکھی ۔ امریکہ عافیہ کو رہاکرنا چاہے تو ازخود بھی ایسا قدم اٹھا سکتا ہے اور ایسے اقدام سے پاکستانی عوام میں اس کو مثبت انداز میں لیا جائیگا یہ انداز یہ تاثر صرف پاکستان میں ہی نہیں
خود امریکہ میں سامنے آئیگا کہ ان کی حکومت نے انسانی حقوق کیلئے ، انسانیت کیلئے ایک قیدی کو رہا کیا اور اس کو اس کے گھر تک پہنچایا ۔ ایسا عمل اختیار کرنے کیلئے پاکستان کی حکومت بھی امریکی حکومت کے سامنے مطالبہ رکھ سکتی ہے لیکن نجانے یہاں کی حکومت ایسا عمل کیوں نہیں کرتی ۔ جبکہ یہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے انتخابات جیتنے سے قبل اور وزیراعظم بننے کے بعد اور ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد بارہا یہ وعدہ کیا کہ وہ قوم کی بیٹی کو ضرور واپس لیکر آئیں گے لیکن انہوں نے ابھی تک اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا ۔ وعدہ پوراکرنا تو درکنار اس حوالے سے کوئی اقدام بھی نہیں اٹھایا۔
Aafia Siddiqui
نہ ہی ان کی بیٹی مریم نے اور نہ ہی ان کی زوجہ کلثوم نواز نے کبھی قوم کی بیٹی کے معاملے پر میاں نواز شریف کو ٹھوس قدم اٹھانے پر مجبو ر کیا ۔ عافیہ کی رہائی کیلئے جدوجہد جاری ہے اور یہ جدوجہد عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی سربراہی میں اس وقت تک جاری رہیگی جب تک قوم کی بیٹی قوم میں پہنچ نہیں جاتیں۔۔