تحریر: میر افسر امان پتہ نہیں کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ بھی ١٦ دسمبر سقوط ڈھاکا کی نسبت سے رکھا تھا جس میں ہمارے مشرقی بازو کو ہم سے کاٹ دیا گیا تھا یا آرمی پبلک اسکول پشاور میں انسانیت سوز دہشت گردی کر کے وہ ہمیںذہنی طور پر مفلوج کر نا چاہتا تھا۔یا یہ اتفاق ہے کہ بھارت کی ایما ء پر افغانستان میں بیٹھے پاکستان دشمن دہشتگردوں نے ١٦ دسمبر کو دنیا کا منفرد دہشت گردی کا واقعہ کر کے ہمیں سبق سکھانا چاہتا تھا۔ کچھ بھی ہر واقعے کے پیھچے قدرت کی تدبیروں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ہم دو دن سے سوچ رہے تھارہے کہ ١٦ دسمبر کے حوالے ڈھاکہ پر کالم لکھیں یا ١٦ دسمبر آرمی پبلک اسکول کے واقعے پر لکھیں دونوں واقعات ہماری کا حصہ بن چکے ہیں ہمیں ان کو ہر حالت میں یاد رکھنا ہے اس پر لکھنا ہے اس سے سبق حاصل کرنا ہے۔
دونوں واقعات میں بھارت کی دہشت گردی نے ہمیں خون میں نہلا دیا تھا۔١٦ دسمبر کی دہشت گردی میں ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہو گیا تھا وہ تو اب تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ ١٦ دسمبر آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعہ سے ہمارا پاکستان یک جان ہو گیا تھا جس نے آگے چل کر پاکستانی قوم کو ایک لڑی میں پررو دیا ہے۔ظلم ظلم ہے جو کوئی بھی کرے۔ہمارا مذہب تو کہتا ہے کہ ایک انسان کے بغیر قصور کے قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کو بچاناپوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے مگر دہشت گردوں نے پشاور میںمعصوم بچوں کو جس طرح دہشت پھیلا کر شہید کیا تھاوہ پاکستانی قوم کو ہمیشہ یاد رہے گا۔
اس کی ذمہ دارے طالبان ے قبول کی تھی۔ طالبان کیا ہیں یہ کہاں کی پیدا وار ہیں ان کی اصل کیا ہے اس پر بہت لکھا گیا ہے مگر ہمارے نزدیک سب سے بڑی بات وہ ہے جو امریکی پالیسی سازوں نے افغانستان کے اوپر حملہ کرنے سے پہلے اپنی کانگرس کا سامنے رکھی تھی ۔جس کانگرس نے ان سے کہا تھا کہ اس سے قبل افغانستان پر حملہ کرنے والے برطانیہ اور روس کا کیا حال ہواتھا۔ اس پر امریکی منصوبہ بنددوں نے کانگرس کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ اس کا انتظام ہم ے کر لیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو سمجھنے کے لیے امریکا نے کیا انتظامات کئے تھے اگر ان کو ہم سمجھ لیں تو آرمی پبلک اسکول پشاور اور پاکستان میں جتنے بھی منظم حملے ہوئے ہیں آسانی سے سمجھ آ سکتے ہیں۔ چاہے وہ حملے ہمارے دفاعی انسٹالیشن پر ہوں یا عام پبلک جگہوں پر ہوں۔
Khyber Pakhtunkhwa
خیبر پختون خواہ کی پٹھان آبادی اور افغانستان کی پٹھان آبادی کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں جب بھی افغانستان پر بیرونی حملہ ہوا پاکستان کی پٹھان آبادی نے افغانستان کا ساتھ دیا تھا۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے اور اسی بات کو افغانستان پر ١١٩ کے بعد حملہ کرنے امریکی منصوبہ بندوں کے سامنے امریکی کانگرس نے رکھی تھی۔ امریکہ نے سب سے پہلے خیبر پختونخواہ کی نیشنل پارٹی کے سربراہ سے معاملہ طے کیا کہ وہ امریکا کا ساتھ دیں جو انہوں نے خیبرپختونخواہ کی پٹھان آبادی کو مختلف طریقوں سے اپنے صوبے میں ہی مصروف رکھااورنیٹو سپلائی کو تحفط دے کر ثابت کیا تھا۔ اس پر پریس میں بیگم نسیم ولی خان نے نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ پر امریکا سے ڈالر لینے کا الزام بھی لگایا تھا۔
بھارت جو پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی کا ہمیشہ اتحادی رہا ہے نے بھی ان سے اور افغانستان کے قوم پرسٹ پٹھانوں سے مل کر امریکا کی مدد کی ہے۔ بھارت نے فاٹا میں دہشت گردی کے کیمپ قائم کیے تھے۔اس کا ذکر(ر) جنرل؟(ر) جنرل شاہد عزیزکی کتاب میں موجود ہے جس میں وہ ڈکٹیٹر مشرف کو بتاتے ہیں کہ فاٹا میں بھارت دہشت گردوں کے ٹرنینگ کیمپ چلا رہا ہے مگر ڈکٹیٹر مشرف نے ان کی ایک نہ سنی جس کا انہوں نے اپنی کتاب میں ڈکٹیٹر مشرف سے احتجاج بھی کیا تھا۔ افغانستان کے اندر قوم پرست پٹھان اور شمالی اتحاد کے ازبک ، تاجک اورہزارہ نے امریکا کی مدد کی ہے۔جب امریکا نے پاکستان مخالف طالبان کو منظم کر لیا پھربلیک واٹر تنظیم کو پاکستان خلاف کاوائیوں پر لگایا اور پریس میں امریکی اہلکاروں کا بیان موجود ہے کہ بلیک واٹر نے عراق میں امریکی فوج کا ساتھ دیا تھا اب پاکستان میں بھی ساتھ دے رہی ہے۔
پاکستان میں بلیک واٹر دہشت گردی کی کاروائی کرے گی اور مقامی طالبان اس کو اون کریں گے۔پاکستان کے ساتھ سب سے بڑی خیانت ڈکٹیتر مشرف نے کی تھی کہ امریکا کو سمندر، بری اور بحری راستے مہیا کر دیے تھے کہ وہ ان انتظامات کے تحت افغانستان پاکستان میں جو بھی کاروائی کرے اس کو کوئی بھی رکاوٹ نہ ہو۔ افرادی قوت کو پاکستان اس وقت کے امریکا میں پاکستان کے وزیر خارجہ غدار حسین حقانی نے امریکیوں کو ویزے دے کر پوری کر دی تھی۔ صاحبو! ان انتظامات کے تحت امریکا نے افغانستان اور پاکستان میں اپنے بنائے ہوئے طالبان سے دہشت کی کاروائیاں کروائیں اور افغانستان اور پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی پاکستان کا سوارب سے زائد کو مالی نقصان ہو چکا ہے ہماری بہادر فوج اور عام شہری ساٹھ ہزار سے زائد شہید ہو چکے ہیں۔
Pakistani Military air base Terrorist Attack
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہمارے جنرل ہیڈ کواٹر، کامرہ ایروناٹیکل بیس، کراچی میں ایئر پورٹ اور نیوی کی جہازوں پر دہشت گردی کی کاروائیاں صرف اور صرف مدرسوں سے پڑھے ہوئے طالبان کر سکتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو بھارت اور امریکا کی ٹرنینگ اور مقامی پاکستان دشمن سیاسی قوتوں کی مدد ہی سے پاکستان میں ایسی کاروائیاں کرتے رہے ہیں۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ درجنوں کونسل خانے قائم کیے ہوئے ہیں جو دہشت گردوں کو ٹرنینگ دیتے ہیں اور وہ پاکستان میں آکر کاروائیاں کرتے ہے ہیں ایسی ہی کاروائی ١٦دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں کی جس میں سیکڑوں بے گناہ ننے منے بچے ان کا نشانہ بنے ہیں۔
ان بے گناہ بچوں کی شہادت پر دل برداشتہ ہو کر ہماری مسلح افواج کے سربراہ نے بر وقت اس دہشت گردی کے خلاف ساری پاکستانی قوم کو اکٹھا کیا عمران خان اپنا دھرنا چھوڑ کر اور دوسری ساری سیاسی پارٹیوں نے پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئیں اور پاکستان کی پارلیمنٹ میں متفقہ قرادا پاس ہوئی اور اس کو قانون بنا دیا گیا۔ دہشت گردوں کو فوری سزا کے لیے فوجی ٹرائل کی عدالتیں قائم ہوئی جو ان کو سزائیں سنا رہی ہیں۔دکھوں کی ماری پوری پاکستانی قوم نے پاکستان کی مسلح افواج کا ساتھ دیا۔
بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایپکس کمیٹیاں صوبوں اور مرکز کے تحت قائم ہوئی ہیں جو قوم کے ترتیب شدہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں ،اس کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کو پکڑ کر قانون کے مطابق سزا دے رہی ہے کل ہی آرمی پبلک اسکول پشاور کے چار دہشت گردوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا یہ آرمی پبلک اسکول پشاور کی ننے منے بچوں کی شہادت کی وجہ ہے جو ملک میں امن وامان کی حالت پہلے سے بہتر ہو رہی ہے ۔ ان شاء اللہ ایک د ن ضر رآئے گا کہ ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان سے آخری دہشت گرد بھی ختم ہو جائے گا یہی ہماری مسلح افواج کے سربراہ اور پاکستانی قوم نے طے کیا ہوا ہے۔اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میرافسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آ ف پاکستان