تحریر:ایم پی خان 16 دسمبر 2014 کی صبح جب والدین اپنے پھول جیسے پیارے اور معصوم بچوں، جن کے ساتھ قوم و ملک ک امستقبل وابستہ ہے، کو الوداع کہتے ہوئے ایک ایسی منزل کی طرف بھیجتے ہیں جہاں امن وسلامتی کاسبق ملتاہے اورجوماں کی گودکے بعد بچوں کے لئے سب سے محفوظ پناہ گاہ ہوتی ہے۔پھولوں کے شہر پشاور کی صبح جتنی دلکش ہوتی ہے، اسکی شام اس قدر بھاری تھی۔ صبح ہنستے مسکراتے سکول جانے والے بچے ، جن کی مائیں راہ تکتی رہیں ،کہ کب وہ اپنے جگر گوشوں کو سینے سے لگائیں گی ۔
لیکن آج انکے بچے گھرنہیں آئے بلکہ ایک ایسی منزل کی طرف چلے گئے، جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ایک قیامت تھی جوٹوٹ پڑی اورجس سے پشاورکے ہرگھرمیں کہرام مچ گیا۔پھول جیسے بچوں کے جسموں کوگولیوں سے چھلنی کردیاگیا۔معصوم بچوں کے خون سے مدرسے کے درودیواررنگے ہیں۔ خون کے تالاب میں بکھرے ہوئے
معصوم بچوں کی لاشیں ، پاس پڑی ہوئیں ٹوٹی پھوٹی کتابیں، قلم اور
PASWAR ATTACK
کاپیاں، بکھرے ہوئے انسانی اعضائ، سڑکوں پر دیوانہ وار دوڑتے، روتے اوربلکتے والدین ، ایمبولینسوں کی آوازیں، جگہ جگہ اٹھتاہوادھواں۔۔۔آہ صد آہ۔۔آج مدرسہ مقتل کامنظر پیش کر رہا ہے ۔
وطن عزیز میں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں قیامت ٹوٹتی ہیں لیکن پشاور گذشتہ کئی دہائیوں سے بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کوئی نہ کوئی ایساسانحہ پیش آتاہے، جواسکے حسن کو غارت کردیتاہے۔ لیکن پھربھی اہل پشاورکا حوصلہ ، ہمت اورجذبہ دیدنی ہے، جو ہرقسم کے حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہیںاورکبھی شکست تسلیم نہیں کرتے۔اہل پشاورنے سینکڑوں بچوں کے جنازے اٹھائے ۔سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی اورکئی اساتذہ کرام نے بھی اپنی جانوں کی قربانی دیکر یہ ثابت کردیاکہ اہل پشاور کبھی ڈرتے نہیں اورنہ کبھی ہارتسلیم کرتے ہیں۔ آج سانحہ پشاورکو ایک سال بیت گیا ۔
APS-Parents
لیکن اہل پشاور بلکہ پورے پاکستان والے اس غم کو نہیں بھولے۔ سانحہ پشاور میں شہید ہونے بچوں کے والدین اورشہید ہونے والے عملے کے ورثاء کی آنکھیں آج بھی پرنم ہیں ۔ شاید اس غم کو بھولنے میں صدیاں لگیں۔سانحہ پشاور اور اس قسم کے دیگر واقعات ہمارے لئے اورہمارے حکمرانوں کے لئے درس عبرت ہے کہ کب تک ہم یوں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کو بے دردی سے شہید ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔وطن عزیز میں قتل وغارت کایہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔کب تک ہماری مسجدیں، دینی اوردنیوی علوم کی درسگاہیں ، اما م بارگاہیں اوربازاریں یوں ہی مقتل بنے ہیں گے۔آخر ایسی کیاغلطی ہے،۔
جس کے سبب وطن عزیز میں ظلم وبر بریت کایہ کھیل ختم نہیں ہورہا۔آئے روزکوئی نہ کوئی ایسا سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے ، جس سے قلب انسانیت مجروح ہوتاہے۔ امن وامان کی اس بگڑتی صورتحال میں ہماری ترقی کی تمام راہیں بند ہیں ۔ہماری نئی نسل کی تخلیقی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہورہی ہیں ۔سکول جانے والے بچے خوف کے عالم میں مبتلاہیں ۔قتل وغارت کا طوفان ہے کہ تھمنے کانام نہیں لے رہااور اسکی شدت میں کمی کی کوئی صورت نظرن ہیں آتی۔ ہمارے پشاورنے ایسے کئی بھائی دن دیکھے، جس پر زمین بھی روئی ، آسمان بھی رویا۔ کتنے بچے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوئے ،کتنی عورتوں کے سہاگ لٹے اورکتنی مائوں کی گو داج ڑگئیں ۔لیکن وطن عزیز میں ایک نہ ختم ہونے والا کھیل جاری ہے۔انسانی خون کی یوں ارزانی کبھی نہیں دیکھی ۔
Peshawar School Terrorists Attack
ہم دیکھنا چاہتے ہیں ، ایک بار پھر پورے ملک میں امن وامان، جہاں ہر پاکستانی چین وسکون سے زندگی بس رکر سکے۔ جہاں سکولوں کے باہر مسلح محافظ کی ضرورت نہ ہواورجہاں سکولوں کے اساتذہ کو بندوق چلانے کی مشق نہ کرائی جائے۔کیونکہ ہم دنیاکی وہ بدقسمت قوم کیوں ہے، جس کے اساتذہ اور طلباء بھی ایک نامعلوم دشمن کے ہاتھوں قتل کے خوف میں مبتلاہیں۔ سانحہ پشاور کو ایک سال بیت گیااور 16 دسمبر کو ہم شہدائے سانحہ پشاورکی یادمیں شمعے جلانے والے ہی کہ پارہ چنارکے بازارمیں ہونے والے بم دھماکے نے پشاورکے دسمبرکو ایک بارپھرخون آلود کر دیا۔