تحریر: محمد عتیق الرحمن قوموں کی زندگیوں میں ایسے واقعات ملتے ہیں جب ان کو جرات وبہادری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ اس وقت سستی وکاہلی اور بزدلی سے اپنے دشمن کو اپنے اوپر حاوی کر لیتے ہیں اور ان کے غلام بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی موقع پاکستانی قوم پر پچھلے سال ماہ دسمبر میں اس وقت آیا جب اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے کچھ عناصر نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم پھولوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔
ان ظالموں نے ہنستے کھیلتے اور تعلیم سے روشناس ہوتے ہوئے بچوں کو خون میں نہلادیا۔16دسمبر 2014ء جسے ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن کہا جائے توغلط نہ ہوگا ۔آرمی پبلک سکول پشاور میں معمول کے مطابق کلاسز جاری تھیں ۔اساتذہ اور طلبا ء معمول کے مطابق اپنے اپنے فرائض میں مشغول تھے کہ دفعتاََزور دار دھماکوںاورفائرنگ نے ان پرلرزہ طاری کردیااور کچھ درندہ صفت لوگ جنہوں نے اپنی ظاہری شکل وصور ت مسلمانوں کی بنائی ہوئی تھی اور ایف۔سی کی یونیفارم پہنے ہوئے معصوم اوربے گناہ بچوں کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ بسم اللہ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے بچوں کے سینے چھلنی کررہے تھے۔
یہ تھے وہ نام نہاد مسلمان جن کو اسلام کی اس بنیادی تعلیم کا ہی پتہ نہیں تھا کہ پیغمبراسلامۖکی بچوں کے متعلق کیا تعلیمات ہیں ۔کتنے ہی بچوں کے سامنے ان کے کلاس فیلوز کو بریسٹ مارکر ان کے سینے چھلنی چھلنی کردئیے ۔بچوں کے سامنے ان کے معماروں کو قتل کیاگیا۔بچے جو قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ان کے سامنے اس طرح کاوحشت ناک منظر شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں وقوع پذیر ہوا ہو۔
Army Public School Attack
ذرا ٹھہریئے میں آج ایک بچے کی کہانی سناناچاہتاہوں۔یہ بچہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا ۔اس کی پیدائش کے بعد والدہ اولاد کی صلاحیت سے محروم ہوچکی تھیں لیکن اللہ کی رضا سمجھ کرانہوں نے صبر وشکرکے ساتھ اس بچے کو پروان چڑھانا شروع کیا اوربچے کے والدین نے شب وروز ایک کرکے بچے کی پرورش شرو ع کردی ۔بچے کی عمر اس وقت چودہ سال تھی اور دن 16دسمبر کا تھا ۔ماں بچے کو سکول چھوڑنے آئی یہ ماں کا روزکامعمول تھا ۔گھر سے سکول تک کوئز ٹائم ہوتاتھا ماںبچے سے سوالات پوچھتی بچہ ان کے جواب دیتا ۔او ریوں اسباق اور سکول ورک کی دہرائی ہوجاتی تھی ۔بچہ راستے میں چیزوں کو ٹھڈے مارتا توماں اسے منع کرتی۔ٹھڈے مارنے سے جوتے گندے ہوجاتے اور اکثر تسمے کھل جاتے تھے۔
سکول کے دروازے پر پہنچ کر ماں روزانہ کی طرح تسمے دوبارہ سے باندھتی اور دوپٹے کے سے پلوسے انہیں صاف کرتی اور ڈھیرساری دعائوں کے سائے میں بچہ سکول کے اندر داخل ہوجاتا۔یہ ان کا روازانہ کا معمول تھا ۔بچہ ہنستا کھیلتا اپنے کلاس فیلوز سے ملتا ملاتا اپنے کلاس میں جابیٹھا ۔کلاس شروع ہوئی ۔اس دن اس کے دو پریڈ فارغ تھے اس لئے ان کا پروگرام فٹ بال کھیلنے کا تھا لیکن دوران پریڈ ہی انہیں دہشت گردوں سے پالا پڑگیا ۔استاد نے انہیں نیچے لیٹنے کو کہا کچھ تو لیٹ گئے اور کچھ بنچوں کے نیچے گھس کر چھپنے کی ناکام کوشش کرنے لگے کہ اچانک کمرے کا دروازہ ٹوٹا اور لمبی لمبی داڑھیوں والے ایف سی کی یونی فارم پہنے ہوئے دوافرادداخل ہوئے اور آتے ہی گولیاں چلانی شروع کردیں ۔جس سے اس بچے کے کلاس فیلوز خون میں لت پت ہونا شروع ہوگئے۔
ایک دہشت گرد نے بنچ کے نیچے ان بچوں کو دیکھا اور ان پر بریسٹ چلادیئے جس کے نتیجے میں اس کے سبھی کلاس فیلوز یا تو شدید زخمی ہوگئے یا پھر اللہ کوپیارے ہوگئے ۔یہ بچہ شدید زخمی ہونے کے باوجودز ندہ تھا اس لئے اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے دوستوں کی لاشوں سے بچتا بچاتا اپنے استاد محترم کی لاش سے لہو ابلتا دیکھتا اپنے آپ کو گھسیٹتا کمرے سے باہر نکلا۔باہر اس کی ایک استانی کی لاش ایک کرسی پر جلی ہوئی پڑی تھی۔
بچہ اپنی دونوں ٹانگوں کو گھسیٹتا ہواکوریڈور تک پہنچا اور یہاں اسے دہشت گردوں نے دیکھ لیا اور اس کے اوپر کھڑا ہوکر اسے کلمہ پڑھنے کو کہا اور بچہ ابھی ”محمدرسول اللہ ” پر پہنچا تھا کہ اس بدبخت نے بریسٹ چلادیا ۔اس بچے کانام جو بھی تھا وہ کسی کابھائی تھا،کسی کا بیٹا تھا اور کسی کا دوست لیکن اب وہ ایک لاش بن چکا تھا ۔ اس جیسی لاتعداد کہانیاں اس دن وقوع پذیر ہوئیں ۔ایک سال گذرنے کے باوجود شہید ایمل خان کے والد ”عتیق اختر” اپنے کام پر دوبارہ نہیں جاسکے ۔بیٹے کی اچانک شہادت نے انہیں کام سے دور کردیا ہے ۔ آج بھی مائیں تیسرے بچے کا لنچ بکس بھول کر بنالیتی ہیں اور جب اسے اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا تو انہیں یاد آتا ہے کہ ان کا بیٹا اس جہاں سے کہیں دور چلاگیا ہے۔
اس واقعہ سے بہت پہلے 1971ء میں بھی ہمارے ازلی دشمن نے ہم پر وار کرکے ہمیں دولخت کردیا تھا۔اس دن ہرپاکستانی ویسے ہی صدمے کی کیفیت میں ہوتا ہے لیکن پچھلے سال عین اسی دن اس واقعہ نے زخمی روحوں کے زخموں کو مزید گہراکردیا ۔ ‘بزرگ بتاتے ہیں کہ اس دن بھی ہم ایسے ہی رورہے تھے جس طرح 2014ء کے دسمبر میں تمہارا حال تھا’ ۔ یہ واقعہ ہونا تھا کہ پاکستانی قوم غم وغصے کی کیفیت سے گذرتے ہوئے ایک عظیم فیصلہ کربیٹھے اور ان دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز اور بغیر کسی تمہیدی بیان کے آپریشن کا فیصلہ کیا۔اگر پاکستانی اس وقت یہ فیصلہ نہ کرتے تو آج تک ہم اس جیسے کئی حملے اورکئی طاہرہ قاضی، کئی ایمل خان اور کئی مون گنوا بیٹھتے۔لیکن اس ایک فیصلہ پر جس طرح پاکستانی قوم نے متحد ہوکر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور جس طرح ان کے پیاروں کی یاد کو اپنی یاد بناکر ان کے دکھ میں ان کے شانہ بشانہ چلے یہ اپنی مثال آپ ہے اور یہ بات ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی قوم ایک ہے۔
Operation Zarb-e-Azb
پاکستان اپنے قیام سے ہی آزمائش میں مبتلا رہاہے شاید ہی کوئی دن ایسا گذرا ہو جب دشمن نے اسلام کے نام پر بننے والے ملک پر کوئی حملہ نہ کیا ہو۔رہی سہی کسر ہمارے نالائق سیاست دانوں نے پوری کردی جو ذاتی مفادات کی خاطر ملک وقوم کے مفادات کو پس پشت ڈالتے رہتے ہیں ۔دہشت گردی ایک عالمی آزمائش ہے جس سے ہم بہت دیر سے نبردآزما ہیں ۔ آئی ۔ایس ۔پی آر کے مطابق آپریشن ضرب عضب میں اب تک مجموعی طور پر 3400دہشت گرد مارے جاچکے ہیں ۔گذشتہ 18ماہ میں 183انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 21193کو گرفتار کیا گیا ہے۔ضرب عضب آپریشن میں 488نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 1914زخمی ہوئے۔
کہتے ہیں ناں کہ ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے” ۔آرمی پبلک سکول پر دہشت گردانہ حملے نے بھی یہی کام سرانجام دیا۔150شہادتوں ‘جن میں سے زیادہ تر ننھی شہادتیں تھیں جوان کھلے پھول تھے ‘نے سیاسی وعسکری قیادتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیااور اس طرح سے ان دہشت گردوں پر ایک کاری ضرب لگانے کا کام شروع ہوا ۔حکومت کی طرف سے بہت سے عملی اقدامات کئے گئے جن کی بدولت آج پاکستان میں امن وسکون کی فضا ء بڑی حد تک قائم ہوچکی ہے ۔دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ڈھونڈا گیا اور ملکی وغیر ملکی این جی اوز کو قانون کے دائرے میں لایاگیا جن میں سے بہت سی این جی اوز ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھیں ۔آرمی چیف کے واضح اعلا ن کے ساتھ ساتھ ان کے عملی اقدامات بھی قابل ستائش ہیں ۔مغربی دبائو پر 2008ء سے سزائے موت پر پابندی تھیں۔
اس لئے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر اس چھوٹ سے فائد اٹھارہے تھے۔ APSواقعہ کے دوسرے روز ہی سزائے موت پر پابندی اٹھا لی گئی اور دہشت گردوں کو پھانسیاں دینی شروع ہوگئیں اور ایک لمبے عرصے بعد دہشت گردوں کے چہرے پر خوف کا عنصر دیکھا گیا۔میرے خیال سے یہ سب اقدامات ان معصوم شہادتوں کی طفیل ہے جنہوں نے ‘اسلام امن کا داعی ہے’ کے الفاظ پر اپنے خون کے قطرے گرائے اور دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم کو متحد کر دیا۔ورنہ تو شاید کوئی بھی طوفان اس قوم کی بے حسی اور سیاست دانوں کی اقتدار سے محبت کوکم نہ کرسکتا اور ہم بحثیت قوم کسی ایسے راستے پر کھڑے پائے جاتے جس پر تباہی وبربادی ہمارامقدر ٹھہرتی۔
عظیم ہیں وہ مائیں جنہوں نے وہ سپوت جنے جو آج اسلام کا دفاع کررہے ہیں اور میں اس پرنسپل کو بھی سلام پیش کرتاہوں جس نے اپنی جان بچ جانے کے باوجود استاد ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے شہیدہ کے منصب پر فائز ہوگئیں۔ آج کے دن ہم سب اپنے آپ سے ایک سوال کریں کہ کیا ہم ان ننھے منے شہداء کی قربانیوں کو کہیں بھول تو نہیں چکے ؟اور کیا ہم پاکستان کو صحیح معنوں قائد کا پاکستان بنانے میں کرداراداکر رہے ہیں؟