تحریر : ملک نذیر اعوان نگا ہ بلند دِل نواز جاں پُر سوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کا رواں کے لئے 15نومبر 1942ء آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا۔ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا کون ہو گا ۔ ملسمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو قبل قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا تھا۔ اور قیامت تک موجود رہے گا۔ قائداعظم محمد علی جنا ح نے قیام پاکستان میں جو اہم کردار ادا کیااس سے کون ناواقف ہے ۔ آپ کی انتھک کوششوں محنت ذہانت اور قابلیت کی بنا پر ہمیں وطن پاکستان ملا ہے۔ اس کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے موقع پر قائداعظم نے فرما یا کہ ہم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھاکہ اسلام کو تجربہ گاہ بنا سکیں ہمارا آئین یعنی قرآن مجید چودہ سو سال سے موجود ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجمتاعی زندگیوں میں اسلام کو نافذ کر سکیں یعنی تصورت پاکستان الحمد اللہ آج صرف نہ صور مسلمان بلکہ عیسائی ۔ہندووں۔ سکھ اور پارسی سب ہی اتحاد و اتفاق سے رہتے ہیں ۔قائداعظم نے اتحاد ملی کے لئے دن رات محنت کی ۔ گروہوں اور فرقون مین نئی قوم کو ایک جگہ جمع کیا ۔آپ نے ذات پات ۔رنگ و نسل اور قبائلی نظام سے ہٹ کر صرف اسلام کے نام پر قومیت کو اکھٹا کیا۔ اور اتحاد و اتفاق کا درس دیا ۔ آپ پاکستان کو اسلامی اور مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ جس مین تمام لوگو ں کو بلا مذہب اور فرقہ بنیادی حقوق حاصل ہوں۔
تمام لوگ حقوق و فرائض سے آشنا ہیں ۔ اور وطن میں اپنا اپنا کردار انجام دیں ۔ قائداعظم قرآن و سنت کو مرکز سمجھتے تھے جن کی روح سے انصاف اور برابری کے اسلامی تصورات ملتے ہیں۔ آپ اسلامی جمہوریت جس مین معاشرتی انصاف اور انسانی مساوات ہو۔ پسند کرتے تھے۔ آپ نے حسب۔ نصب ۔رنگوں و نسل ۔ ذات پات کے تصورات کی مخالفت کی بلکہ تقویٰ اور اخلاق کو بنیادقرار دیا۔ آپ علاقہ اور فرقہ پرستی کے سخت خلاف تھے۔ دوقومی نظریے کی روشنی میں الگ وطن کے اصول کے لیئے علاقائی ، صوبائی اور مذہبی فرقہ واریت کے بت توڑے اور صرف نہ صرف قوم ہونے کا دعویٰ کیا جس میںفرقہ وریت نہ ہوں اور اردو کو سرکاری زبان وقرار دینا ، مرکزیت کے قیام کیلئے ضروری سمجھا گیا۔ اتحاد ملی کیلئے آپ آخری دم تک مصروف رہے۔ آپ ملک و ملت کو متحد اور مضبوط قوت دیکھنا چاہتے تھے ۔ 25 دسمبر 1876 ء کا ایک تابناک دن جب عیسائی کرسمس کی خوشیاں منا رہے تھے، کراچی میں ایک تاجر جناح پونجا کے گھر ایک بچے نے آنکھ کھولی ۔ اس کا نام محمد علی رکھا گیا ، کون جانتا تھا یہ بچہ ایک دن برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے دل کی دھڑکن اور ملت کا ستارہ بن کر ابھرے گا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی میںحاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان چلے گئے، وہاںپر آپ نے بارہ لا ء ایٹ کی ڈگری حاصلی کی۔ دراصل قدرت نے آپ کے لئے وکالت کا پیشہ خود پسند کیا تھا۔ کیونکہ آپ کو برصغیر کے مظلوم اور بے کس مسلمانوں کا مقدمہ لڑناتھا۔ مقدمہ آزادی، یہ سعادت آپ کے حصے میں لکھی جا چکی تھی۔آپ نے وطن واپسی پر بمبئی میں وکالت شروع کی اور بہت ہی کم مدت میںآپ کا شمار برصغیر کے ممتا ز قانون دانوں میں ہونے لگا۔ آپ کے دلائل اس قدر پراثر ہوتے تھے کہ آپ کے مخالف بھی آپ کی قابلیت کا اعتراف کرتے تھے۔ بے شمار مقدمات میں آپ نے حیران کن کامیابیاںحاصل کیں اور عظیم بیرسٹر کہلائے۔ آپ نے قوم کو اتحاد کا درس دیا، آپ کا عطا کردہ نعرہ تنظیم، یقین، اتحاد مسلمانوں کیلئے آب حیات بن گیا۔ آ پ کی ولولہ انگیز کوششوں نے مسلم لیگ کے مردہ جسم میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی اور جلد ہی مسلم لیگ ایک نئی جماعت بن گئی اور مسلمان برصغیر ہند میںمتحد ہو گئے اور اپنا مقصد پا لیا۔ آ ج کے اس دور میں بھی ہر مسلمان کواتحاد ، یقین اور عمل پیہم پر عمل کرنا چاہیے۔
Allama Iqbal
عہدِ حاضر کی کہانی قائد اعظم محمد علی جناح پہلے آپ کانگرس کی جماعت میں تھے لیکن جب آپ کو پتہ چلا کہ کانگریس ہندووں کی جماعت ہے تو آپ نے 1916ء میں مسلم لیگ میں شمولیت کر لی اور آپ کے آنے سے جماعت میں خوشی کی لہر دوڈ کئی اور آپ کو جلد ہی مسلم لیگ کے اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا اور کچھ عرصے کے بعد مسلم لیگ بھی ایک برصغیر کی بڑی جماعت بن گئی اور اسی بنا پر علامہ اقبال کے خواب کو سیچ کر دکھایا کیونکہ یہ بہت ناز دور تھا اس وقت ہندووں آپنے آپ کو انگریزوں کا واحد جانشین سمجھتے تھے بلکہ پنڈت نہرو نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں صرف دو بڑی طاقتین ہیں ایک کانگریس اور دوسری انگریز لیکن قائدعظم محمد علی جنا ح نے اپنے پرزور دلائل سے دو قومی نظریہ پیش کیا کہ مسلمان مذہب ۔تاریخ ۔لباس ۔تہذیب ۔زبان غرض ہر لحاظ سے ہندووں سے الگ قوم بھی اور نظریہ پاکستان کی بنیاد تھا ۔ اور قائدعظم محمد علی جناح نے پنڈت نہرو پر واضح کر دیا کہ مسلمانوں کاطرز معاشرت۔مذہب اور ہماری اخلاقیات ہندووں قوم سے قطعی الگ ہے۔اس لیئے مسلمانوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔
قائداعظم نے ماضی کے علم و انصاف کو اجاگر کر کے قوم کو متحد کیا مسلمان مستقل اور مثبت طریق پر ایک الگ قوم ہیں وہ اپنا الگ قومی وجود رکھتے ہیں ۔ اپنی مخصوص ثقافتی رویات کو برقرار رکھنے کے جذبے سے سر شار ہیں وہ اپنے آپ کو وسیع قومی اتحاد میں ضم کرنے یا گم کرنے پر راضی نہیں ہو سکتے ہر صورت میں اب اس ملک میں مسلم ریاست کا قیام ہونا ضروری ہے آخر کار قائداعظم کے اس ٹھوس دلائل پر لارڈ مونٹ بیٹن مجبور ہو گیا اور اس نے آخر کار ایک الگ وطن پاکستان کا اعلان کر دیا کانگریسی جماعت محعرض وجود میں آنے کے بعدبھی انگریزوں سے آزادی نہ لے سکی ۔ اور قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ نے آناََفاناَ نہ صرف بھگا دیا بلکہ پاکستان بھی قائم کر کے دکھایا
آخر کار آپ کی انتھک کوشش اور ذہانت کی بنا پر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ اور جس سے مسلمانو ں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اور آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے۔ لیکن آپ کی دن رات محنت کرنے کی وجہ سے آپ کی طبیعت ناساز ہو گئی جس کی وجہ سے آپ کو ڈاکٹروں نے صحت افزا ء مقام پرجانے کا مشورہ دیا اور آرام کرنے کیلئے کہا۔، اور پھر ڈاکٹروں کے مشورے پرآپ کوئٹہ زیارت چلے گئے۔ لیکن آپ وہاں پر بھی صحت یاب نہیں ہوئے۔ آخر 11ستمبر 1948ء کو اس فانی دنیا سے پردہ فرما گئے۔ گہنا گیا وہ چاند مگر اس نور سے دیوارو در وطن کے ہیںتاباں اسی طرح