کراچی : اربن ڈیموکریٹک فرنٹ کے بانی چیرمین ناہید حسین نے کہاہے کہ پاکستانی سیاست کے الف اور نون نے قوم کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی ہے ۔ لگتا ہے دونوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے یعنی لوٹو اور پو ٹھواور قرضوں کا بوجھ بیچاری عوام کو مہنگائی اور معاشی دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑھ رہا ہے اگر کہیںیہ سوچ موجود ہے کہ عوام انہیں آئند ہ الیکشن میں خراب گورنس پر ووٹ نہیں دینگے تو یہ سوچ بالکل غلط ہے کیونکہ انہیں الیکشن لڑنا اور جیتنا بھی آتا ہے جسکا ثبوت 2013اور 2015کے بلدیاتی الیکشن ہیں جو دھاندلی سے جیتے گئے۔
پاکستان میں اب صاف اور شفاف سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے یہاں پر اب سیاسی معافیاز کا قبضہ ہے اور اسی سیاسی معافیا کی وجہ سے کوئی قوم صوبائیت اور لیسانیت کی بنیاد پر تقسیم ہوچکی ہے۔ بچی کچی عوام پاک فوج کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑی ہے اپنے مستقبل کے فکر میں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عہداران و کارکنان کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ ناہید حسین نے مزید کہا کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے جس میں امن و سکون کا مطلب معاشی ترقی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی آپریشن شروع ہونے کے باوجود ابھی تک بہت سے معاملات حل طلب ہیں جن کی موجودگی میں پائیدار امن کا قیام اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کی جانے والی کوششیں باآور ثابت نہیں ہوسکتیں۔ جب دہشت گرد اورراکے ایجنڈ اہم اداروں میں بھی سرایت کرگئے ہیں جو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے جب چاہتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں ہمارے شہروں کو خون میں نہلادیتے ہیں ان شہر پسند عناصر کی گرفت کراچی پر اس قدر مضبوط ہوگئی تھی کہ ایک گھنٹہ کے اندر نامعلوم افراد شہر کا امن تہہ وبالا کردیا کرتے تھے اور یوں کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلایا کرتا تھا سرِشام ہی بازاروں میں ویرانی چھا جاتی تھی جب سے ریاست نے پچھلے برس آپریشن کا فیصلہ کیا جس سے کراچی کے حالات میں 75%فیصد بہتری دیکھنے کو ملی جو شاید حکمرانوں کو راس نہ آئیں اور انہوں نے رینجرز کے اختیارات میں قدفن لگادی اور رینجرز صرف چور واچکے چھوٹے مذہبی دہشت گرد گرفتار کرسکتی ہے پر ان کے سرپرستوں کو نہیں بلکہ گرفتارکرنے سے پہلے اجازت لینا ہوگی اور کسی سیاسی معاشی دہشت گرد گرفتار بھی نہیں کرسکتے
اگر یہ پتہ چل جائیں کے وہ حکمراں جماعت کا ہے تو بالکل ہی نہیں ۔ ناہید حسین نے کہا کہ جنرل ڈیکال نے کہا تھا کہ میں ایک فوجی ہوں ۔ جمہوریت کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ جمہوریت کے معنی ہے کہ جمبور کی اکثریت کی نمائندگی ہو اور منتخب ہونے والے نمائندے کل ووٹوں کا 51%فیصد لیں اور حکومت بنائے لیکن پاکستان میں نمائندے بوگز ووٹ بھی ڈلواتے ہیں اور کل ووٹز کا 16%فیصد حاصل کرکے حکومت بناتے ہیں اور حکومت میں اپنے رشتہ داروں اور خوش آمدیوں کوبانٹ دیتے ہیں اور قوم و ملک کو قرض دار بناتے ہیں اور قانون بھی اپنی مرضی کا بناتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگ کورٹ کچہری کے نظام سے خوف زدہ ہوتے ہیں وہ اپنے موقف پر حق بجانب ہونے کے باوجود بھی مقدمہ درج نہیں کرتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عدالت جانے کا مقصد وقت اور پیسے کا ضائع ہونا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کے علاوہ ظلم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہورہا ہے ۔ انصاف کے راستے میں حایل ہونے والوں میں پولیس کا نام سرفہرست ہیں جو مظلوم اور متاثرہ افراد کی بروقت ایف آئی آردرج کرنے سے گریز کرتی ہے۔
ایف آئی آردرج کرانے کا معاوضہ مقرر ہے یا پھر سیاسی بالادستی کے پیش نظر طاقتور اور بااثر شخصیات کا ساتھ دیا جاتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں کرپٹ معاشی دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد کا ہجوم ہے جن کے خلاف خبریں تو بہت آرہی ہیں مگر جب جرم ثابت کرنے کی باری آتی ہے تو پھر وہی پرانے ہربے استعمال کیئے جاتے ہیں جو آج کل ڈاکٹر عاصم کے کیس میں ہورہا ہے کیونکہ اُسے بچانا ہے اور ان سب سے بڑھ کر بااثر شخصیات کی دخل اندازیاں اور اس کے علاوہ جس کو چھوڑنا ہوتو وہاں نیب کواستعمال کیا جاتا ہے ۔ ناہید حسین نے آخر میں کہا کہ ابھی شہر کی رونقیں بحال کرنے کیلئے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے کیونکہ جب دہشت گردوں اور ان کے ساتھ سہولت کاروں کا چن چن کر خاتمہ نہیں کیا جائیگا اس وقت تک کراچی میں مکمل امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔