تحریر: ابنِ نیاز ایک خبر نظر سے گزری کہ حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں سفارشات کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔جنھیں جلد ہی منظوری کے لیے وزیراعظم صاحب کو بھیجا جائے گا۔ ان تجاویز کے ساتھ ہی وزارتِ منصوبہ بندی بچوں کو خوف میں مبتلا رکھنے کے خلاف بھی سفارشات تیار کر رہی ہے۔جس کے تحت بچوں کی بہتر نشونمااور ملک کا اچھا شہری بنانے کے لیے کئی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔بچوں کا سالانہ میڈیکل چیک کیا جائے گا۔ انہیں روزانہ ایک پائو دودھ فراہم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ساتھ میں والدین کو بتایا جائے گا کہ بچوں کو متوازن خوراک کیسے دی جائے۔ گھروں میں بھی بچوں کو مارکٹائی سے بچانے کے کلچر کو فروغ دیا جائے گا۔ جیسے سکولوں میں “مار نہیں پیار” کی پالیسی اپنائی گئی ہے، اسی طرح گھروں میں بھی خوف کی فضا کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں بھی تجاویز زیرِ غور ہیں۔اور بھی مختلف قسم کی تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کے حوالے سے جو بنیادی تجویزدی گئی ہے وہ ہے کہ اگرچہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نسبت تنخواہیںسو فیصد زیادہ ہیںلیکن ان کی کارکردگی نجی تعلیمی اداروں میں صرف ایک چوتھائی ہے۔تعلیمی اداروں کی اصلاحات کے لیے پرائیویٹ اداروں کی خدمت حاصل کی جائیں یا انہیں مکمل طور پر پرائیویٹ کر دیا جائے تا کہ اسکے ریزلٹ سامنے آسکیں۔ اس سلسلے میں میرے ذہن میں اور شاید اور بہت سے لوگ ہوں گے جن کے ذہن میں یہ سوال آئے گا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی استعداد کار کو بہتر کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ باقاعدہ اساتذہ کی تربیت کی جاتی ہے۔ کوئی بھی استاد بنا پروفیشنل ڈگری کے بھرتی نہیں ہو سکتا۔ پرائمری سطح کے لیے انٹر کے ساتھ پی ایس ٹی، سی ٹی کی اضافی ڈگری بہت ضروری ہے۔ مڈل اور ہائی سکولوں میں بی ایڈ، ایم ایڈ کی اضافی ڈگر ضروری ہے۔ یہ تو سرکاری سکولوں میں اساتذہ بھرتی ہونے کی بنیادی ضرورت ہے۔کیونکہ عام دفتروں میں جس طرح کچھ سالوں کا تجربہ ضروری ہوتا ہے، وہ کسی بھی نئے استاد کے لیے ممکن نہیں ہو سکتا۔اسلیے انہیں اس طرح کی بنیادی ڈگر ی لینی پڑتی ہے۔
School Privatization
جب اساتذہ یہ ڈگر لے کر بھی درست طور پر بچوں کو علم نہیں دیتے ، سکولوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ بچوں کو رٹے لگانے پر مجبور کرتے ہیں تو یہ قصور اساتذہ کا کم اور ان کے پیچھے موجود سسٹم کا زیادہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے بنیادی چیز اساتذہ کی سکول میں حاضری کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا ہ میں مانیٹرنگ سسٹم وضح کیا گیا ہے۔ لیکن کیا صرف اساتذہ کی مکمل حاضری سے بچوں کی تعلیم میں اضافہ ممکن ہے؟ ہر گز نہیں۔ مانیٹرنگ والے سکولوں کا چکر لگاتے ہیں، اساتذہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ وقت پر آئے ہیں ، سکول میں موجود ہیں، وقت پر چھٹی کی ہے اور بس۔کسی کسی سکول میں مانیٹرنگ والے شاید بچوں سے سوالات بھی کر لیتے ہیں لیکن میرے تجربے کے مطابق مانیٹرنگ والے کچھ سوالات ایسے کر لیتے ہیں جن کے جوابات شاید ان کو خود بھی نہ آتے ہوں۔ اگرچہ وہ سوالات ہوتے کتاب سے ہیں، لیکن ان کا جواب بچوں کو نہ آنے کی دو ہی وجوہات ہوتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ابھی تک وہ اس باب تک نہیں پہنچے ہوتے یا پھر استاد نے ان کو پڑھایا تو ہے، لیکن اس باب سے متلعق انہیں علم فراہم نہیں کیا۔ پڑھایا ضرور ہے لیکن علم نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے بعد میں امتحان کے قریب وہ اس باب کا اور دیگر ابواب کا رٹہ لگائیں گے۔
تو صرف اساتذہ کی حاضری ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ مانیٹرنگ والوں کونسا استاد کو چہروں سے پہچان ہوتی ہے۔ تو کوئی بھی استاد ہزار دو ہزار میں اپنی جگہ میں کسی بھی بیروزگار فرد کو رکھ کر بچوں کی تعلیم سے کھیل رہا ہوتا ہے۔ استاد کی حاضری بھی لگ جاتی ہے، مانیٹرنگ والوں کا چیک اپ بھی او کے ہو جاتا ہے اور اس بیروزگار کو کچھ سیگریٹ پانی کیلیے جیب خرچ بھی مل جاتا ہے۔اصلی استاد کدھر غائب ہوتا ہے؟ یا تو اس نے اپنا کوئی پرائیویٹ تعلیمی ادارہ کھولا ہوتا ہے یا پھر وہ کسی دوسری جگہ پر نوکری کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ایک تیر میں دو کیا کئی شکار کرتا ہے۔ جب استاد اس طرح دھوکہ دہی سے، فریب سے کام لے گا، تو اس کے بچوں کو کیا تعلیم دی جائے گی۔ یہی دھوکہ دہی کی ، فریب کی۔ نہ تو اسکی روحانی تربیت ہوتی ہے نہ ہی جسمانی۔ اور یہ سب کچھ نہ ہونے کا ذمہ دار صرف استاد ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیمی نظام بھی ہوتا ہے جو ان اساتذہ کو بھرتی کرتا ہے، ان کو چیک کر تا ہے۔
بچوں کو تعلیم دینے میں اگر کوئی استاد سستی کرتا ہے تو اس استاد کی اس سسٹم میں موجودگی کیا معنی رکھتی ہے۔ جب وہ اپنے پیشے سے ایمانداری سے پیش نہیں آتا تو پھر اس کو اس پیشے میں رہنے کا حق ہر گز نہیں ہے۔ ویسے بھی اساتذہ کے نظام کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سب سے زیادہ عیاشی کرتے ہیں ۔ کہ سال میں چھ ماہ چھٹیوں میں گزارتے ہیں اور بقیہ چھ ماہ وقت ضائع کرنے میں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نجی تعلیمی ادارے کا بچہ وہی نصاب پڑھ کر اچھے نمبر لیتا ہے اور سرکاری سکول کا بچہ اس نصاب کو ہی نہیں سمجھ سکتا۔ فرق صرف اساتذہ کے پڑھانے کے طریقہ کار کا ہوتا ہے۔ پرائیوٹ سکولوں میں باقاعدہ ایک سسٹم بنایا ہوتا ہے کہ کس ہفتے میں کیا کام کروایا جائے گا اور اس پڑھائے گئے اسباق کا نتیجہ دیکھنے کے لیے کہ وہ طلباء کے دل و دماغ میں کس حد تک سمایا ہے، ان کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔اور کبھی کبھی یہ ٹیسٹ بغیر کوئی تاریخ بتائے، اچانک لے لیا جاتا ہے۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ بچہ کتنے پانی میں ہے۔پرائیویٹ سکول کی انتظامیہ اپنے بچوں کے ساتھ محنت کرتی ہے کیونکہ انھوں نے سکول کی ساکھ کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ جو بچے وہاں داخل ہیں ان کو نکال کر کسی دوسرے سکول میں داخل کیا جائے۔بے شک یہ فیس کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن یہ ساکھ کا مسلہ بھی ہوتا ہے۔
Private School Teachers
اگر پرائیویٹ سکول کے اساتذہ اپنے بچوں کے ساتھ ٹریننگ نہ کیے ہوئے بھی اتنی محنت کر سکتے ہیں تو پھر سرکاری سکولوں کے اساتذہ کیوں نہیں۔ درحقیقت ان اساتذہ پر مکمل چیک نہیں ہے۔ اگر مانیٹرنگ سسٹم سے ان کی حاضری چیک کی جاسکتی ہے تو ان کا استعداد کار کیوں نہیں۔ ان اساتذہ کو بھی نصاب کی ایک ترتیب بنا کر دی جائے کہ کس ہفتے کیا پڑھانا ہے اور کس حساب سے پڑھانا ہے۔ان کے ٹیسٹ کب لینے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی طلباء کے ذہن کو کھلا کرتی ہیں۔ اگر باقاعدہ طور پر ان سرگرمیوں کو جاری رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بچے پڑھائی میں بھی دلچسپی نہ لیں۔ سرکاری سکولوں میں بچوں کی دلچسپی نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سکول میں انھیں ہر وقت ہی پڑھائی کی طرف رکھا جاتا ہے۔ نجی سکولوں میں جس طرح بچوں کو کھیل کھیل میں سبق سکھایا جاتا ہے، وہی طریقہ سرکاری سکولوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ اگر سکول اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جائے ، اس حد تک کہ انھیں دوسری نوکری کی ضرورت نہ پڑھے، اور پھر سکول میں اساتذہ کی تعداد بھی اس حد تک بڑھائی جائے کہ فی استاد زیادہ سے زیادہ چار پیریڈ لے، تاکہ اس پر بھی حد سے زیادہ بوجھ نہ پڑھے تو ہر سکول ایک دوسرے سے بڑھ کر کارکردگی دکھائے گا۔ جب یہ سب کچھ ہو سکتا ہے اور بہت آسان ہے تو پھر سرکاری سکولوں کو نجکاری کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔جب تک سکول قومی دھارے میں رہیں گے، تب تک تو بچے شاید سستے میں پڑھ سکیں۔ مگر جس دن وہ نجی تحویل میں چلے گئے، پھر بچوں سے مختلف حیلے بہانوں سے مختلف قسم کے فنڈ بٹورے جائیں گے۔ اور پھر یوں ہو گا بچے صرف ان کے پڑھیں گے جو امیر سے امیرتر اور امیری ترین ہوں گے۔