تحریر : عبدالرزاق چودھری جب بھی انسان کامیابی کے سفر کا انتخاب کرتا ہے تو اسے جگہ جگہ کانٹوں کی فصل کاٹنا پڑتی ہے۔ تکلیفوں، اذیتوں اور مشکلوں کے پہاڑ عبور کر کے ہی وہ راحت، سکون، طمانیت اور خوشحالی کی وادی میں قدم جمانے کے قابل بنتا ہے۔ یاد رہے حصول کامیابی کے سفر میں بنیادی نقطہ خیال ہے خواب ہے۔
آپ کی قدر و منزلت آپ کے خیال وخواب ہی سے مشروط ہے۔تاریخ انسانی میں جتنے بھی کامیاب انسان گزرے ہیں انہوں نے راستے میں حائل آلام و مصائب کو زیر کر کے ہی اپنے اہداف حاصل کیے ۔وہ کامیابی کے سفر میں متعدد دفعہ ناکامی اور مایوسی کا شکار ہوے لیکن انہوں نے کوشش ترک کرنے کی بجائے مزید محنت کرنے کی ٹھان لی اور یوں وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر نئے سرے سے اپنی منزل کی تلاش میں اٹھ کھڑے ہوے۔ یہ بات تو شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ کامیابی کا تاج باآسانی کسی کو نصیب نہیں ہوتا مستقل مزاجی،استقلال اور بلند ہمتی کے پیرہن میں محنت شاقہ کو شعار بنا کر ہی مطلوبہ منزل کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔کسی بھی انسان کا خواب اور سوچ کا انداز اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
اس کی سوچ،خیال اور خواہش کی نوعیت کیا ہے ؟وہ کس شعبہ میں اور کس ہنر میں نام کمانا چاہتا ہے ۔وہ اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے کس میدان کا انتخاب کرتا ہے ۔ وہ اپنے مفادات اور دوسرے لوگوں کے مفادات کو کس طرح سیراب کرنا چاہتا ہے ۔کسی بھی انسان کے انداز فکر ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فکری اور اخلاقی لحاظ سے کس مقام پر کھڑا ہے ۔ وہ بلند مرتبہ اوصاف کا حامل انسان ہے یا ظرف کے اعتبار سے پست ہے ۔وہ اپنی ذاتی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے یا دوسروں کی خدمت پر کمر بستہ ہے ۔ وہ اپنی بھلائی چاہتا ہے یا اس کی نظر میں عالم انسانی کی فلاح کا عنصر غالب ہے ۔ان سوالوں کا جواب اس کے خواب میں پوشیدہ ہے۔
Success
فی زمانہ ہر کوئی ناموری کا تمنائی ہے شہرت کا بھوکا ہے دولت کا طلبگار ہے جاہ و حشمت کا خواہشمند ہے ۔اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد دیکھنا چاہتا ہے ۔ دوسروں پر حکومت کرنا چاہتا ہے ۔ طاقت کا سرچشمہ بننا چاہتا ہے ۔ بظاہر سبھی ان ہی خواہشات کے ریلے میں بہہ رہے ہیں لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ کچھ ہی لوگ اپنی ان خواہشات کی تکمیل کر پاتے ہیں جبکہ لوگوں کی اکثریت تو گلے میں ناکامی و نامرادی کا طوق لٹکا کر عمر بھر اپنی بری قسمت کا رونا روتے رہتی ہے۔
اس فرق کی وجہ صاف ظاہر ہے ۔ کامیاب انسان ناکامی سے گھبراتا نہیں ہے وہ ناکام ہونے کے بعد اک نئے جوش،ولولہ اور حوصلہ کے ساتھ اپنی منزل کے حصول کی خاطر جدوجہد کرتا ہے جبکہ کم حوصلہ و ناکام انسان ناکامی سے خوفزدہ ہو کر اپنی منزل کا رستہ ہی تبدیل کر لیتا ہے دوسرے لفظوں میں اپنے خواب کو ہی بدل لیتا ہے اور پھر جب اس راستہ پر بھی رکاوٹوں اور مزاحمتوں کی آندھی چلتی ہے تو بار بار اپنا خواب و راستہ تبدیل کرنے کی عادت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے ناکامی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے اور شاہراہ کامیابی اس سے کوسوں دور چلی جاتی ہے ۔انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی کاوش پر دوسروں کی حوصلہ افزائی کا متمنی ہوتا ہے کیونکہ ترقی کے سفر میں حوصلہ افزائی آکسیجن کا کام دیتی ہے جو مایوس اور مردہ بدن میں اک نئی روح پھونکدیتی ہے۔لیکن عام انسان شاید اس راز سے بے خبر ہوتا ہے کہ ترقی کے سفر میں اس کے حوصلہ کی گاڑی کو دھکا لگانے والے کم ہی نصیب ہوتے ہیں۔
زیادہ تر سفر کامیابی میں دوست نما سپیڈ بریکرز سے واسطہ رہتا ہے جو آپ کی رفتار اپنے کاٹ دار جملوں سے کم کر دیتے ہیں ۔ آپ کے خواب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ پر باور کرواتے ہیں کہ آپ کے خواب کی تعبیر ناممکن ہے لیکن حقیقت میں وہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا اور وہ اپنے بارے میں قائم کی گئی رائے کو دوسروں پر لاگو کر دیتے ہیں اس صورت میں بھی اکثر کے خواب ریزہ ریزہ ہو کر تحلیل ہو جاتے ہیں اور خوابوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی بکھر جاتے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس بلند حوصلہ لوگ جو ارد گرد کی آوازوں کی پرواہ نہیں کرتے وہ بخوبی سمجھ رہے ہوتے ہیں لوگ ان کے کام کی تعریف، ستائش اور تحسین کیوں نہیں کر رہے ۔ ان حقیقتوں سے باخبر وہ اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔آپ بھی تجربہ کر کے دیکھ لیجئے ۔ کسی دوست ، عزیز سے کسی اچھوتے اور منفرد خواب یا آئیڈیا کا ذکر کیجیے وہ آپ کا مذاق اڑائے گا ۔ سر محفل اور آپ کی پیٹھ پیچھے آپ کے خیال و خواب کی دھجیاں اڑائے گا۔
Hard Work
کبھی کبھی میرے دل میں یہ سوچ بیدار ہوتی ہے کہ ایک چھوٹاسا آئیڈیا ڈسکس کرنے پرہم مذاق کا نشانہ بنتے ہیں تو لوگوں نے ان عظیم ہستیوں کیخیال و خواب کا کیا حشر کیا ہو گا جنہوں نے ہوائی جہاز،ریل انجن،ریڈیو،ٹی وی،فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کے آئیڈیاز پیش کیے ہوں گے۔ لوگ تو ان کو دیوانہ سمجھتے ہوں گے ،پاگل گردانتے ہوں گے ان کی باتوں پر قہقہوں کا طوفان برپا کرتے ہوں گے۔ لیکن دوستو وقت نے ثابت کر دیا کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ایجاد کا سبب ایک اچھوتا اور منفرد خیال ہی ہوتا ہے ۔اس لیے انسان کو اپنے سچے جذبوں سے کشید کیے ہوے خواب ،تمناوں اور خواہشات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی آوازوں پر دھیان دینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ان آوازوں پر دھیان دینے کی بجائے اپنے خواب کی پرواز کو بلند آہنگ سے ہمکنار کیجیے۔ایکسٹرا ترقی کے لیے ایکسٹرا محنت کیجیے۔کوشش، محنت،مستقل مزاجی اور استقلال سے آپ اپنے سب خوابوں کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ دھیان رہے یہ باتیں محض خوب صورت الفاظ کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ مسلمہ سچائیاں ہیں۔
نپولین نے کیا خوب کہا ہے لغت میں سے ناممکن لفظ نکال دیجیے سب کچھ ممکن ہے مگردیکھنا یہ ہے کہ خواب کو عملی صورت میں بدلنے کے خواہشمند کا اپنے خواب کی پیروی میں کی جانے والی جدوجہد کی نوعیت کتنی شدید ہے ۔خواب کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کے لیے جتنی محنت درکار ہے کیا خواب تخلیق کرنے والے کے اندر اتنی محنت کرنے کا جذبہ اور صلاحیت موجود ہے ۔کیونکہ یہ حقیقت بر مبنی بات ہے کہ جب کوئی انسان پختہ ارادے کے سنگ اپنے کسی بھی خواب کا پیچھا کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اپنے کیے ہوے فیصلے پر ڈٹ جاتا ہے تو کامیابی کے گھوڑے پر سوار ہو کر ہی رہتا ہے۔
اگر مندرجہ بالا اوصاف آپ کی ذات کا حصہ ہیں تو آپ سب خوابوں کی تعبیر حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک نامور کرکٹر بننا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے نوید ہے کہ کھیل کے میدان آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ بلند پایہ سنگر بننا چاہتے ہیں تو موسیقی کی نگری آپ کی طالب ہے۔ آپ ایک معروف کالم نگار بننا چاہتے ہیں تو اخبارات کے صفحات آپ کے منتطر ہیں۔ اگر آپ سیاستدان بن کر ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اقتدار کے ایوانوں کے درودیوار آپ کا استقبال کرنے کو بے تاب ہیں۔
منزل پر جو پہنچ گیا وہ سرخرو ہوا اس کا کوئی نہیں جو بھٹکتا ہو راہ