تحریر : عبدالرزاق شام کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دل و دماغ میں تشویش کی اک لہر اٹھتی دکھائی دیتی ہے۔ گولہ و بارود کی برسات میں اک جانب شامی باشندے غم و الم کی تصویر بنے ہوے ہیں تو دوسری جانب روس، امریکہ اور نیٹو فورسز اس مقدس سرزمین کو تختہ مشق بنائے ہوے ہیں طاقت، غرور اور تکبر کا کھیل جاری ہے ۔ترکی نے اپنی سرزمین کی خلاف ورزی پر روسی طیارہ مار گرایا تو روس سراپا غرور کی عملی تصویر کا روپ دھار کر ترکی کو للکارنے لگا اور ترکی کو سنگین نتائج کی کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جو تاحال جاری ہے ۔بکھرے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے روس کو معمولی معاشی مضبوطی نے ہی اک مرتبہ پھر تکبر کے گھوڑے پر سوار کر دیا ہے اور وہ ترکی کو عبرت ناک نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
روس نے شامی سرحد پر خطرناک میزائل سسٹم نصب کر کے اپنے عزائم ظاہر کر دئیے ہیںاور موقع ملنے پر وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔روس نے ترکی سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور ترکی پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔ ترک طالب علموں کو روس چھوڑنے کا پروانہ بھی جاری ہو چکا ہے ۔ ترک زبان سکھانے والے کالج بھی بند ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا ترکی اور روس کے مابین صورتحال کافی کشیدہ ہو چکی ہے ۔دوسری جانب بظاہر امریکہ ترکی کا پشت پناہ دکھائی دیتا ہے جو بذات خود ظلم و ستم روا رکھنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ۔ مسلمانوں کو تو یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ امریکہ کہیں ترکی کو دھوکہ نہ دے دے کیونکہ امریکہ کا حتمی ٹارگٹ بالآخر مسلمان ہی ہیں اور ترکی اقتصادی میدان میں مسلمانوں کا نمائندہ ملک ہے جو یقینی طور پر امریکہ کی آنکھوں میں بھی کھٹک رہا ہو گا۔
Tayyab Erdogan
ہمت اور جوانمردی کا نشان ترک رہنما طیب اردگان نے جنگی طیارے کے معاملے پر روس سے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ روسی طیارے نے ترکی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ ثبوت کے ساتھ اپنے موقف کی سچائی کو متعلقہ فورم پر ثابت کر سکتے ہیں تاہم انہوں نے روسی طیارے کے مار گرائے جانے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ ان حالات کے تناظر میں یہ خدشہ جنم لے رہا ہے کہ سازشی عنا صر کی جانب سے اگر معمولی سی بھی کوئی چنگاری بھڑکا دی گئی اور اس قسم کا کوئی اورمعمولی سا بھی واقعہ رونما ہو گیا تو امریکہ اور روس کو اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کی کھلی چھٹی مل جائے گی۔
امریکہ اور روس ایک مرتبہ پھر پر رونق شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیں گے لاکھوں زندگیوں کے چراغ چشم زدن میں گل ہو جائیں گے اور اس کے آثار بھی ہویدا ہونا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ امریکہ داعش کی آڑ میں اور بشارالاسد کی مخاصمت میں شام کی سرزمین پر قدم جما چکا ہے اور جدید ترین و خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ وہ اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے بے قرار ہے اور داعش کا فتنہ اس کے مقاصد کے حصول میں ایندھن کا کام دے رہا ہے ۔پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں کی دل دہلا دینے والی داستانیں ابھی ترو تازہ ہیں ۔ لاکھوں انسانوں کے خون سے رنگین یہ جنگیں تباہی اور بربادی کے اعتبار سے اک سبق کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان جنگوں میں امریکہ اور جرمنی کے کردار سے کون واقف نہیں۔
America
امریکہ نے غرور اور تکبر کی انتہا کر دی۔ جاپانیوں پر وہ ظلم و ستم ڈھایا کہ انسانیت آج بھی اس کے اس مکروہ فعل پر شرمسار ہے ۔چشم زدن میں لاکھوں جاپانی باشندے موت کی وادی میں اتر کر ابدی نیند سو گئے اور لاکھوں کی تعداد میں معذور ہو کر پر لطف زندگی سے محروم ہو گئے۔امریکی سفاکیت کی اس کہانی سے تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی آگاہ ہے اور دنیا کے کسی بھی خطہ میں موجود ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ امریکہ ہمیشہ غرور اور تکبر کا جامہ اوڑھ کر طاقت کے نشہ میں مخمور خود غرضی کی سواری پر تباہی و بربادی کا کھیل کھیلنے کا شوقین ہے اور اس کے اس ذوق کی تسکین تاحال جاری ہے۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد بڑی دیر تک دنیا سنبھل نہ پائی ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ دنیا ان جنگوں کی ہولناکی کو بھولی تھی کہ اک مرتبہ پھر حالات یوں دکھائی دیتے ہیں کہ طاغوتی قوتیں پر امن گلستان کو اجاڑنے پر کمربستہ ہیں دنیا کا سکون برباد ہونے کو ہے ۔ کسی شیطان اور درندہ نما گروپ کی سلگائی ہوی چھوٹی سی چنگاری پر امن شہروں کو ملیا میٹ کر سکتی ہے ۔ ہنستے بستے ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو سکتے ہیںکیونکہ طاقت کا اندھا استعمال روس اور امریکہ کا خاصہ رہا ہے اور بالخصوص امریکہ تو مسلمان دشمنی میں تمام مروجہ اخلاقی قدریں کھو دینے کا عادی ہے اور دنیا اس کا عملی مظاہرہ افغانستان ، عراق اور ڈرون حملوں کی صورت دیکھ چکی ہے۔
امریکہ کی جانب سے رچائے گئے اس کھیل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اس نے اپنی اندھی طاقت کا استعمال کرنے کے لیے جن ممالک کو منتخب کیا ہے وہ مسلمان ممالک ہیں جن میں ان دنوں شام سر فہرست ہے اور خدشہ ہے کہ بعد ازاں ترکی کی سرزمین کو بھی تختہ مشق بنایا جا سکتا ہے ۔شامی باشندے جس کرب میں مبتلا ہیں ہر مسلمان کو اس کا احساس ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ظلم کا نشان امریکہ اپنے مذموم عزائم کو سازش کے پہناوے میں اس قدر مکاری سے مکمل کرتا ہے کہ مسلم حکمرانوں کو اس کی ہوا تک نہیں لگتی اور مسلم حکمران اس کے بچھائے جال میں پھنس کر آپس میں بر سر پیکار ہو جاتے ہیں اور وہ مسلمانوں کو اقتصادی بد حالی کا شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ امریکہ یہ کھیل سال ہا سال سے کھیل رہا ہے اور وہ اپنی چالوں میں اب تک کامیاب بھی ہے اور یہ سلسلہ دراز ہونے کی بھی توقع ہے ۔خدا مسلمانوں کو اس کے ناپاک عزائم سے محفوظ رکھے۔