تحریر: پروفیسر رفعت مظہر آج میلادِ نبیۖ ہے۔ بلاشبہ ہم اپنے نبیٔ مکرم کی ولادت کایہ دِن انتہائی عقیدت واحترام سے مناتے ہیں، گھروں، گلی محلوںاور بڑی بڑی عمارتوں کوجھنڈیوںاور بجلی کے قمقموںسے سجاتے ہیں، میلادکی محافل منعقد کرتے ہیں اورجلسے جلوس ،ریلیاں نکال کرآقاۖ سے اپنی محبت اورعقیدت کابھرپور اہتمام کرتے ہیں۔ اِس میںبھی کوئی شک نہیںکہ ہرمسلمان جس میںرتی بھربھی ایمان ہے وہ حرمتِ رسولۖ پرکَٹ مرنے کوہمہ وقت تیاررہتا ہے ۔سوال مگریہ ہے کہ ہمارادین ہمیںجو حکم دیتاہے اورجو آقاۖ کی سنت ہے ،کیاہم اُس کے تقاضوں پرپورے اترتے ہیں؟۔ انتہائی دُکھ سے کہناپڑتا ہے کہ اِس کاجواب نفی میںہے اورہماری حالت توبقول اقبال یہ کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
یہ بجاکہ ہم یومِ ولادتِ رسولۖ پراپنی بھرپور عقیدتوں کااظہار کرتے ہیںلیکن اِس میںبھی کوئی شک نہیںکہ یہ عقیدت ،احترام اورالفت ومحبت محض ایک دِن تک محدودرہتی ہے اور جونہی یہ عقیدتوںبھرا دِن اپنے اختتام کوپہنچتا ہے توہم پھراُنہی خرافات کے اسیرہو جاتے ہیںجو اہلِ مغرب سے مرعوبیت کی بناپر ہماری نَس نَس میںسما چکی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی ،سماجی ، دینی اوراخلاقی اقدار نہ صرف روبہ زوال بلکہ تقریباََ پامال۔ ہم ذہنی طورپر تہذیبِ مغرب کے اتنے اسیرہو چکے کہ ہمیںیہ تک یادنہیں رہاکہ ربّ ِ لَم یَزل نے ہمیں ”خیرِ اُمت” بناکر بھیجا ۔سورة آل عمران میںارشاد ہوتاہے ” تم دنیامیں وہ بہترین گروہ ہوجسے لوگوںکی اصلاح وہدایت کے لیے میدان میںلایا گیاہے ۔تم نیکی کاحکم دیتے ہو ،بدی سے روکتے ہو اوراللہ پرایمان رکھتے ہو”۔ گویا ربّ ِ کردگارنے توقومِ مسلم کودنیاکا امام بناکر بھیجالیکن ہم غلام بَن کررہ گئے ۔یہی وجہ ہے کہ اب توہماری دعائیںبھی مستجاب نہیںہوتیں۔
Amamat
وہ امت جسے خیر کی امامت سونپی گئی، وہ فسق وفجور اور بَداخلاقی وبے حیائی میںاتنی آگے نکل گئی کہ یہود و ہنود بھی انگشت بدنداں ۔وہ نسلِ نو جسے زمانے کی امامت کرنی تھی ،آج اُس کایہ عالم کہ دُورسے یہ تمیزکرنا مشکل کہ مذکرہے یامونث یاپھر مخنث ۔کانوں میں بالیاں ،ہاتھوں میں کنگن ،گلے میں مالا اور کمرتک لٹکتے بال دیکھ کربھلا کون اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ لڑکی ہے یالڑکا۔
اُدھرہمارے حکمرانوںکا یہ عالم کہ اُنہیں”لبرل پاکستان” عزیز اور” دیوالی وہولی” میں شمولیت کا شوق ۔ہم یہ نہیںکہتے کہ غیرمسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرو، اُنہیں اُن کے جائز حقوق نہ دواور اُن کے ساتھ محبت اوررواداری سے پیش نہ آؤ ۔ہم تویہ عرض کرتے ہیںکہ اُن کی مشابہت اختیارنہ کروکیونکہ میرے آقاۖ کافرمان ہے ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی ،وہ اُنہی میںسے ہے ”۔ ایک اورموقعے پر آقاۖ نے فرمایا ”مشرکین کے ساتھ نہ رہو ،نہ اُن کے ساتھ اُٹھو بیٹھو۔ جواُن کے ساتھ رہے گا، وہ اُنہی میںسے شمارہو گا”۔غیرمسلموں کی عبادت گاہوںکی حفاظت حکمرانوںپر لازم، اُنہیں عبادات اوراپنے مذہبی تہوارمنانے کی کھلی چھوٹ کہ یہ میرے دین کاتقاضہ ہے لیکن اُن کی نقالی اورمذہبی تہواروں میںشرکت کی سختی سے ممانعت ۔
میرے آقاۖ کایہ بھی فرمان ”قیامت اُس وقت تک نہ آئے گی جب تک میری اُمت پہلی اُمتوںکے طورطریقے اخیتار نہ کرلے ۔اگروہ ایک بالشت چلیںگے تویہ بھی ایک بالشت چلے گی ،اگروہ ایک ہاتھ چلیںگے تومیری اُمت بھی ایک ہاتھ چلے گی”۔ اب آپ خودہی اندازہ کرلیجئے کہ کیایہ قربِ قیامت کی نشانی نہیںکہ اُمتِ مسلمہ اپنی تہذیب وتمدن ،رسوم ورواج اورمعاش ومعاشرت میںمکمل طورپر اہلِ مغرب کے رنگ میںرنگی جاچکی ۔کیا یہ حقیقت نہیںکہ اِس وقت دنیامیں سب سے زیادہ کم علم اورجاہل مسلمان ہی ہیں۔
کیااِس میںکوئی شک ہے کہ لبرل ازم اورفیشن کے نام پربے باکی وبے حیائی عام ہوچکی ۔تہذیبِ مغرب کازہر توہماری نَس نَس میںیوں سماچکا کہ اب امّی اورابّوکی جگہ موم ڈیڈ اورماما ،پاپا نے لے لی ۔آقاۖ کافرمان ہے کہ ہمیشہ سلام کرنے میںپہل کرو لیکن ہم توٹیلی فون اُٹھاتے ہی اسلامُ علیکم کی بجائے ہیلو ،ہائے کہتے ہیں ۔ہم پہلے بھی عرض کرچکے کہ حبّ ِ رسولۖ ہماری نَس نَس میںموجود لیکن حبّ ِ رسولۖ کے تقاضوں کی طرف مطلق دھیان نہیں ۔عید میلادالنبیۖ پرچراغاں بجا ، محافل کاانعقاد بھی مستحسن ،جلسے جلوس اورریلیاں بھی درست لیکن کیاصرف ایک دِن کے لیے؟۔ اگرہم واقعی حبّ ِ رسولۖ کااظہار کرناچاہتے ہیںتوپھر ہمیںلہو ولہب سے باہرنکلنا ،اسلامی تہذیب وتمدن کواپنانا ہوگا ،رقص وسرور ،میوزیکل کنسرٹ ،فن فیئر ،فیشن شوز اورمینابازار جیسی خرافات سے جان چھڑانی ہوگی۔
Islam
دکھ تو یہ کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اِس ملک میں یوں تو ہر کوئی اسلام کو بہترین نظامِ حیات قراردیتا اور اسلامی نظام لانے کی خواہش کااظہار بھی کرتاہے ۔ہم نے آئین میںاسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کاذکربھی کیا جس نے سات سالوںمیں پورے آئین کواسلامی قالب میںڈھالناتھا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل بھی پاچکی لیکن آج بیالیس سال گزرنے کے باوجود عملاََ کچھ بھی نہیںہوا ۔یہ دراصل ہمارے ذاتی واجتماعی کردارکی منافقت کاشاخسانہ ہے ۔ ہم نام کے مسلمان ضرور ،کام کے ہرگز نہیں ۔علامہ اقبال توبہت پہلے اپنے اِس دُکھ کااظہار کرچکے کہ
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں ، جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
آئیے ! ہم سب مِل کراِس مبارک دِن کے موقعے پر عہدکریں کہ ہم اغیار کی نقالی کی بجائے سُنتِ رسولۖ کی پیروی کریںگے اوراقوامِ عالم پریہ ثابت کریںگے کہ ہمارادین ہی سب سے بہتر اوراسی میں فلاح کی راہ۔