تحریر : عقیل خان زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہیں بھولتیں۔ مسلمانوں نے برصغیر پر بہت عرصہ حکمرانی کی۔ تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں کتابیں مسلمانوں کے کارناموں سے بھری ہوئی ہیں۔ کونسا میدان ہے جس میں مسلمانوں نے اللہ کے فضل سے کامیابی حاصل نہ کی ہو۔جس وقت پاک و ہند ایک تھا اس وقت بھی کسی بھی ہندومیں ہمت نہیں تھی کہ اپنے لیے الگ ملک کا سوچ بھی ہے۔
اس وقت بھی مسلمانوں نے اپنے دین کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے ایک الگ وطن کا نعرہ بلند کیا۔اس وطن کی خاطر مسلم حکمرانوں نے دن رات ایک کردیا۔ ویسے تو اس وطن کی آزادی میں بہت سے حکمران شامل تھے مگر اس کا سارا کریڈٹ ایک دبلے پتلے شخص کو جاتا ہے جس نے ہندوؤں کو ہر مقام پر شکست سے دوچارکیا۔ہمیں ایک قوم کی حیثیت دلانے والے شخص کا نام قائد اعظم ہے۔آپ کو” بابائے قوم” بھی کہا جا تا ہے۔
Quaid e Azam
قائداعظم 25 دسمبر 1876 کوکراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام پونجا جناح تھا۔ آپ اپنے بہن بھائیوںمیںسب سے بڑے تھے۔ آپ نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم کے انگلستان چلے گئے۔وہاں جا کر آپ نے ملازمت کی اور پھر کچھ عرصہ بعد ملازمت چھوڑ دی اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا ۔ 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بہت نام کمایا۔ برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پاگئیں۔
قائداعظم محمد علی جناح نے نہ صرف تاریخ کا دھارا بدلا بلکہ دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے وہ قائد تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے انگریزوںسے آزادی حاصل کی۔ آپ کو پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے ابتدا میں آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے ۔کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے اس پارٹی کو چھوڑ دیا اور مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ آپ نے مسلمانوں کے حقوق کی خاطر چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں سے اختلافات کی وجہ سے آپ برطانیہ چلے کئے۔ علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔
اس ہی دوران میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی۔ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش ہوئی جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔1940کے بعد قائد اعظم تپ دق کا شکار ہوئے۔صرف ان کی بہن اور ان کے چند قریبی لوگ ان کی حالت سے واقف تھے۔آپ کی انتھک محنت اس وقت رنگ لائی جب 14اگست 1947کو دنیا کے کے نقشے پر پاکستان بن کر ابھرا۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنرجنرل بنے اسی لیے آپ کو مستحکم پاکستان بنانے کے لیے دن رات ایک کرنا پڑا ۔ بدقسمتی سے آپ قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصہ حیات نہ رہ سکے اور 11ستمبر 1948 کو دنیائے فانی سے کوچ کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
Quaid e Azam
ایک حیرت انگیز اور قابل غور پہلو پر غور کیجئے ۔ آپ ذرا غور کریں اور تھوڑی سی تحقیق کریں تو آپ خود حیرت زدہ ہو جائیں گے ۔ قائد اعظم کا انتقال 11ستمبر 1948کو ہوا۔ 1948 سے لیکر آج تک پاکستان کا یوم آزادی ، قائد اعظم کا یوم ولادت اور قائد اعظم کا یوم وفات ایک ہی دن ہوتا ہے۔ اسکی وضاحت کے لئے آپ کو موجودہ سال کی مثال دیتا ہوں۔ پاکستان کا یوم آزادی 14اگست بروزجمعة المباک تھا۔ قائد اعظم کا یوم وفات 11ستمبر بروزجمعة المبارک تھا اور اب قائد اعظم کا یوم پیدائش 25دسمبر بھی جمعة المبارک کے دن منایا جا رہا ہے۔
آپ غورکریں کہ قائد اعظم اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے کس طرح لازم و ملزوم ہیں اور ہر سال قائد اعظم کا یوم پیدائش، یوم وفات اور یوم پاکستان مختلف مہینے ہونے کے باوجود ایک ہی دن ہوتا ہے۔ 1948سے آج تک ہماری عوام قائداعظم جیسا رہنما تلاش کررہی ہے کیونکہ قائداعظم ہمیںپاکستان تو دے گئے مگر اپنا جانشین نہ دیکر جاسکے۔پاکستان کو بنے کئی سال گزر گئے مگر ہم اس دن سے آج تک ہم اس پاکستان کو تلاش کررہے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ ہم قائدکے فرمان تو ضرور پڑھتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کرتے ۔ پچھلے چند سالوں سے ہمارے ملک کے جوحالات ہیں ان کو دیکھ کر تو ہمارے قائد کی روح بھی کانپ رہی ہوگی۔ کہنے کو تو ہمارا ملک آزاد ہے مگر یہاں پر آج بھی انگریزوںکے بنائے ہوئے اصول چل رہے ہیں۔ ہماری معشیت آج بھی ان کی غلام ہے۔
حکمرانوں کے ان رویوں نے ہی پاکستان کو بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔ عوام سوچتی ہیں کہ آج جس پاکستان میں وہ سانس لے رہے ہیں وہ قائداعظم کا پاکستان ہرگز نہیں ہے کیونکہ جہاں جھوٹ کا دور دورہ ہے۔ کرپشن کا زورختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ مظلوم کو انصاف نہیں ملتا جہاں لوگ لسانیت، فرقہ پرستی کے حصہ میںتقسیم ہیں۔ جہاں غریب کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل سے مشکل ہوتاجارہا ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے لوگ ڈکیتی اور چوری جیسے گناہ کرنے پر مجبور ہور ہے ہیں۔ جہاں ہر کوئی ملکی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔
عوام آج سیاستدانوں سے ، بیوروکریٹوں سے، علماء سے، تاجروں سے، قانون دانوں سے ، صنعتکاروں سے اور اساتذہ سے صرف’ ‘قائداعظم کا پاکستان” مانگتے ہیں۔ جہاں فیصلے ملک کے مفاد میں ہوتے ہوں۔ جہاں میرٹ صفحہ اول ہو، جہاں قانون سب کے لیے یکساں ہو۔قائد اعظم نے پاکستان کے نظام میں مغربی جمہوریت کی کئی بار نفی فرمائی۔ قائد اعظم کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ہمیں ہر بیان میں اسلام اور قرآنی نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ آج قائد اعظم محمد علی جناح ہم میں نہیں لیکن ان کی تعلیمات ان کی فکر ان کی سوچ ان کے طرز زندگی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ قائد نے ہمیں یہ آزاد ملک اس لئے دیا کہ ہم اس ملک میں آزادانہ طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔