تحریر: عفت صالحہ نام کی ہی نہیں دل کی بھی صالحہ تھ وہ اور اس کا شوہر اشرف سیدھے سادھے انسان تھے جو ملا صبر شکر کر کے کھا لیا جتنی توفیق ہوئی اتنا پہن لیا ۔اشرف ایک مل میں روزانہ کی بنیاد پہ کام کرتا تھا ۔دو کمروں کا چھوٹا سا پکا مکان اور ایک کفایت شعار بیوی۔ ماں باپ ساتھ چھوڑ گئے صالحہ اس کی خا لہ زاد تھی ۔اور بچپن میں ماں کی وفات کے بعد اشرف کی ماں نے اسے پالا تھا اور جوان ہونے پہ اشرف کی زندگی کا ساتھی بنا کر دونوں میاں بیوی آگے پیچھے ملک ِ عدم روانہ ہو لئے ۔شادی کو پانچ سال گذر گئے تھے مگر ہنوز اولاد کی دولت سے محروم تھے ۔خدا کو امتحان مقصود تھا اور طالب ِ علم امتحان دینے کو۔وقت کی ڈور ہاتھ سے پھسل رہی تھی ۔کبھی کبھی شکوہ زبان پہ آجاتا مگر جونہہ ہی احساس ہوتا ندامت گھر آتی اور کلے پیٹ کر استغفار کا ورد کرنے لگتی ۔نمازیں لمبی ہو جاتیں اور سارہ دن بے کلی رہتی ۔تنہائی سے گھبرا کر پڑوس کا رخ کرتی مگر وہاں بھی دل نہ لگتا ان سب کے پاس رونے کو کئی رونے تھے ساس،نند ،میاں ،اور بچوں کے مسائل ۔جبکہ صالحہ ان روگوں سے بے نیاز تھی ۔وہ چپ کر کے گھر کی راہ لیتی ۔شام کو اشرف آتا تواسے اداس پاتا وہ اس کی تنہائی سے با خبر تھا ۔اس نے صالحہ کو مشورہ دیا کہ بچوں کو قرآن ِپاک پڑھا دیا کرے اس کا دل بھی لگا رہے گا اور ثواب کا ثواب ۔بات کرنے کی دیر تھی کئی بچے آنے لگے اور صالحہ آپا جی کے عہدے پہ فائز ہو گئی ۔
دسمبر کا مہینہ تھا ،صالحہ نے ناشتے کے دوراں اشرف کو گرم کپڑوں کی فرمائش کی ۔اشرف نے وعدہ کیا کہ وہ جلد آجائے گا اور اسے بازار لے جائیگا ۔دونوں شام کو گھر سے نکلے ابھی خریداری کے لئے پہلی دکان میں جانے لگے تھے کہ فضا دھماکوں سے گونج اٹھی صالحہ کو لگا وہ اڑ کر دور جا گری ہے اس کے بعد اسے کوئی ہوش نہ رہی ۔جب ہوش آیا تو خود کو پٹیوں میں جکڑے پایا اس نے مندی مندی آنکھوں سے سرہانے دیکھا سٹینڈ پہ لٹکی ڈرپ سے قطرہ قطرہ محلول اس کے جسم میں پیوست سوئی کے زریعے اس کی رگوں میں جا رہا تھا ۔اس کو کچھ بھی یاد نہیں تھا بے اختیار اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر درد کی ٹیسوں نے اسے بے دم کر دیا ۔لیٹی رہیں محترمہ آپ بہت زخمی ہیں ۔ایک نرم سی آواز اس کی سماعت میں گونجی ۔اس نے نظریں گھما کر آواز کی سمت دیکھا ایک خوبصورت مرد کھڑا تھا ْمیں ڈاکڑ احمر ہوں ۔صالحہ کی آنکھوں میں اجنبیت تھی ۔
Doctor
مم میں کہاں ہوں ؟ اس نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا ۔آپ اسپتال میں ہیں اور آپ کو دس دن بعد ہوش آیا ہے آپ بم دھماکے میں زخمی ہو گئی تھیں ۔اس سے زیادہ ہم آپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔آپ بتا سکتی آپ کون ہیں اور کہاں سے تعلق ہے تاکہ آپ کے گھر والوں کو آگاہ کیا جاسکے ۔یک بیک اس کے دماغ میں جھماکا ہوا اسے سب یا د آگیا ۔اشرف ،بے اختیار اس کے منہ سے نکلا اور اس نے سوالیہ نظر وں سے ڈاکٹر کو دیکھا ۔ڈاکٹر نے نفی میں سر ہلایا مجھے ان کے بارے میں انفارمیشن نہیں بحرحال میں پتہ کرتا ہوں ۔ڈاکٹر احمر نے اسے تسلی دی ۔دھماکے کے بعد لوگوں کو مختلف اسپتالوں میں طبی امداد کے لیے بھیجا گیا تھا ۔باوجود کوشش کے اشرف کا پتہ نہ چل سکا کیا خبر وہ اس دنیا میں نہ رہا ہو صالحہ کی جان بھی بہت مشکل سے بچی تھی ۔ڈاکٹر احمر نے اس کا بہت ساتھ دیا اب وہ کافی حد تک ٹھیک تھی اور کل اسے چھٹی مل جانی تھی ۔وہ اشرف کی گمشدگی سے بہت پریشان تھی اس کے سوا اس کا تھا کون ۔
صالحہ بی بی آپکو ڈسچارج کر دیا گیا ۔یہ دوائیں ایک ہفتہ استعمال کرنی ہیں ۔نرس نے صالحہ کو پرچی تھمائی ۔اور یہ کچھ رقم ڈاکٹر احمر نے دی تھی کہ آپکو دے دی جائے آج ان کا آف ہے ۔صالحہ اسپتال سے باہر آئی اور پتہ بتا کر رکشے میں سوار ہو گئی گھر کے سامنے رکشہ رکا تب تک وہ دکھ سے ادھ موئی ہو چکی تھی سامنے خالہ رضیہ اسے دیکھ کے اندر لے گئیں وہ ان کے گلے لگ کر رو دی اور سب کہہ سنایا وہ اشرف کی ماں کی سہیلی بھی تھیں ۔خالہ اب میں کیا کروں کہاں تلاش کروں اشرف کو وہ روتے ہوئے بولی ۔اس سوال کا جواب خالہ کے پاس بھی نہ تھا ۔پانچ ماہ بیت گئے اشرف کا کوئی پتہ نہ تھا صالحہ کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہا ورنہ اتنے عرصے میں پلٹ آتا ۔وہ کپڑے سی کے اوربچوں کو پڑھا کر گذارہ کر رہی تھی ۔اس دن اس کی طبیعت کچھ ناساز تھی موسمی بخار تھا اس نے سوچا خالہ کے ساتھ جا کے دوا لے آئے ۔پرچی بنوا کے باری کا انتظار کر رہی تھی کہ ڈاکٹر احمر کی نظر اس پہ پڑی وہ پہچان کر آگے بڑھا ،کیسی ہیں آپ اس نے مسکرا کر پوچھا ۔جی بس بخار تھا تو دوا لینے آئی تھی صالحہ نے خالہ سے تعارف کرواتے ہوئے بتایا ۔آپ کے شوہر کا پتہ چلا؟ احمر نے اس کا بی پی چیک کرتے ہوئے اسستفسار کیا ۔نہیں صالحہ نے سر جھکا لیا ۔دوا لے کر وہ گھر آگئی ۔وقت کا کام گذرنا ہے سو گذر رہا تھا سال بیت گیا ۔ایک دن خالہ بہت خوش خوش صالحہ سے ملنے آئیں ۔خیریت خالہ صالحہ ان کو خوش دیکھ کر خوش ہو گئی ۔
Mother.jpg
آج تجھ سے ایک بات کرنی ہے کب تک اکیلی رہے گی میں تیری ماں کی جگہ ہوں میرے ہاتھوں پلی ہے تو ڈاکٹر احمر نے رشتہ کی بات کی ہے اس کی پہلی بیوی بچے کو جنم دے کر گزر گئی بہت اچھا انسان ہے ایک دوسرے کا آسرا بن جائو ۔خالہ نے صالحہ کو سمجھایا ۔مگر خالہ میں کیسے اشرف ؟ بات ادھوری رہ گئی اری بٹیا وہ بچارہ زندہ ہوتا تو آجاتا سال بیت گیا ہے ۔الغرض خالہ کے سمجھانے بجھانے پہ صالحہ مانگئی اور احمر کے ساتھ سادگی سے نکاح ہو گیا دو سالہ شانزے کو ماں مل گئی وہ جلد ہی صالحہ سے مانوس ہو گئی زندگی خوبصورت ہو گئی تھی احمر بہت اچھا شوہر ثابت ہوا ۔ایک سال بعد نمل نے آ کے ان کی زندگی مکمل کر دی ۔شانزے سکول جانے لگی تھی اورنمل دو سال کا تھا ۔آج شانزے کے سکول میں فنکشن تھا اس نے فینسی ڈریس شو میں پری کا رول کیا تھا اور پرائز جیتا تھا وہ بہت خوش تھی فنکشن سے واپسی پہ گاڑی سگنل پہ رکی ایک پاگل مجنوں دیوانہ وار دوڑ رہا تھا اچانک اس کی نظر گاڑی میں بیٹھی صالحہ سے ٹکرائی صالحہ بھی اسے دیکھ رہی تھی ایک لمحہ اور شناسائی کی رمق اور پھر ایک تیز رفتار ٹرک کی ٹکر سے وہ چار فٹ اچھلا اور ساکت ہو گیا ۔صالحہ کے منہ سے چیخ نکلی اس نے آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیا احمر تیزی سے نیچے اترا اور لرزتے قدموں سے صالحہ بھی ،مگر پاگل موت کی آغوش میں جا سویا تھا اس کی آنکھوں میں اب بھی حیرانی اور شناسائی کی چمک تھی ۔صالحہ کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر احمر شاید سمجھ چکا تھا اس نے اس کو سہارا دیا اور ایمبولنس کو کا ل کرنے لگا۔ ختم شد