تحریر: عفت پیریڈ کی گھنٹی بجی ،میںذہن میں lessan plan کو دھراتی ہوئی کلاس میں داخل ہوئی ۔بچوں نے کھڑے ہو کر تعظیم دی،اشارے سے بیٹھنے کا کہہ کے ان سے ان کا حال دریافت کیا ۔میری عادت ہے کہ میں جاتے ہی بچوں پہ سبق مسلط نہیں کرتی بلکہ جو موضوع پڑھانا ہواس کے متعلق ہلکی پھلکی گفتگو کر کے اس میں بچوں کو شامل کرتی ہوں تاکہ وہ ذہنی طور پر اس میں انوالو ہو جائیں ۔اور اس موضوع میں دلچسپی لیں سو آج کا موضوع تھا حب الوطنی ۔میں نے گفتگو کا آغاز کیا اور سوال کی گیند بچوں کے کورٹ میں پھینکی ۔بچو حب الوطنی کیا ہوتی ہے؟ ساتویں کلاس کے طلبا ء کے ہاتھ اْٹھے میں نے اشارے سے جواب کے لئے کہا ،وطن کی محبت کو حب الوطنی کہتے ہیں ایک بچی نے کھڑے ہو کر وضاحت دی۔شاباش ،اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں ؟
دوسرا سوال میرے لبوں پہ تھا اور بچے من کے سچے ،ایک ہاتھ کے علاوہ سب ہاتھ کھڑے ہو گئے میں نے حیرانگی سے اس بچے کو دیکھا جس کا ہاتھ نیچے تھا ۔اسے اشارہ کیا بیٹا کیا آپ پاکستان سے محبت نہیں کرتے؟میرے لہجے کا استعجاب اور بچے کا تامل دیکھنے کے قابل تھا میری حوصلہ افزائی پر بچہ گویا ہوا ،میم پاکستان میں کیا رکھا ہے؟جو اس سے محبت کی جائے نوکری یہاں نہیں ملتی ،رشوت سفارش یہاں عام ہے دہشتگردی غربت لاقانونیت سسٹم میں خرابی جائز کم ناجائز طریقے سے کروانے پڑتے ،کیسا پاکستان ہے یہ کیسے محبت کریں اس سے؟ ویسٹرن میں دیکھیں صفائی ہے سب قانون پر چلتے انسان تو انسان جانوروں کی بھی قدر ہے میں تو امریکہ کو لائک کرتا ہوں ۔بچہ خاموش ہوگیا اور میں اس سے ذیادہ خاموش۔ شاید بچہ من کا سچا ٹھیک کہہ رہا تھا اس کی آنکھیں سوال اور میری آنکھیں شرمندہ ۔اس گفتگو کے بعد میرا دل کلاس میں نہ لگاوہ تو ایک بچے کا جواب تھا مگر میرے لیے سوچوں کے در وا کر گے] ۔
Pakistan
واقعی ہم ببول بو کر پھولوں کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی ہم نے نئی نسل کے لیے کانٹے بو دیے ہیں؟ کیا واقعی پاکستان کے حالات اس قدر کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں کہہ بچے بھی اسے محسوس کرتے ہیں کیا یہ نفرت انگیز رویہ نہیں ؟آگہی بہت بڑا عذاب ہوتی ہے جب ہم اس گرداب سے آشنا ہو جاتے ہیں تو ہماری نظر میں ہر غیر قانونی بات کھٹکتی ہے ۔دل کا درد قلم کے زریعے باہر نکلا اور صفحہ قرطاس بکھر گیا ۔تمام اہل قلم لکھتے رہے اور پڑھنے والے پڑھ کر سر دھنتے رہے اور پھر بھول بھال گئے بلکل اس طرح جیسے ھم نے سبقِِِ اطاعت رسولۖ فراموش کر دیا ،ورنہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں زندگی کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔خواہ وہ معاملات معاشرت ہوں یا معاملات حکومت معاشی مسائل ہوں یا دینی ہر بات کا حل موجود ہے۔ آج ہم جن معاملات سے دوچار ہیں یہ سب دین سے دوری اور لا علمی کا نتیجہ ہے ۔ترقی کی دوڑ میں ہم نے سارے اسباق ِغیر تو یاد کر لیے،انگریزی تعلیم کو اپنا مطمع نظر بنا لیا اور کامیابی کا راستہ بھی سمجھ لیا۔۔
انگریزی سلیبس کی دوڑ میں ہم اس حد تک آگے نکل گئے کہ اپنی روایات ،اقدار،ادب سب بھول گئے با با بلیک شیپ تو رٹ لیِ مگر شکوہ جواب شکوہ کی سمجھ نا آ سکی۔حتی کہ ایک ملک میں ایک قوم کے لیے تعلیم بھی دولت کی تقسیم کی نظر ہو گئی،غریب ماں باپ کا بچہ ٹاٹ پر بیٹھ کر گورنمنٹ سلیبس پڑھے گا جبکہ امیر ماں باپ کا بچہ اے ۔سی والے کمرے میں میز کرسی پر بیٹھ کر امریکن سلیبس پڑھے گا ۔انگریزی کو اردو پر ترجیح دی جائیگی کہ ہم اسلامیات کو بھی انگلش میں پڑھیں گے۔اور تو اور ڈگریاں بھی اشیائے خوردونوش کی طرح بکیں گی۔یہاں انسان بکتے ہیں۔
Election
ووٹ بکتے ۔مخلصی اور قوم کا درد صرف الیکشن کے دنوں دل میں سمٹ آتا اس کے بعد میں کون تو خوامخواہ،ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ،ذرا بارش ہو توسڑک سوئمنگ پول کا نقشہ پیش کرتی ہے ہم عمارت پر عمارت چڑھا لیتے ہیں مگر اپنے گھر کا گند پڑوسی کے گھر کے آگے پھینک کر خود کو تہذیب یا فتہ سمجھتے ۔لباس اور سوچ کی عریانی ،بھارت کے ڈرامے اس میں بیان کردہ سازشیں ان سب کے بغیر ہمارا گذارا نہیں ،ہم اس بات سے ہی لا علم ہیں کہ کس مضبوط پلا ننگ سے ہماری نسل نو کو تباہی کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔اور کس طرح ہم اندر ہی اندر سرائیت کیے جانے والے اس زہر کا شکار ہو رہے کاش ہم بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام والے دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور اپنی اقدار کی جانب لوٹ آیئں تا کہ ہمارے بچے بھی کہہ سکیں ۔ہمیں اپنے پاکستان سے محبت ہے۔