تحریر : نسیم الحق زاہدی ذوالفقار علی بھٹو کو عوامی، انقلابی اور غریبوں کا لیڈر کہا جا تا ہے بھٹو کے جیالے آج بھی بھٹو کے نام پر قر بان ہو نا اپنے لئے با عث اعز ا ز سمجھتے ہیں پیپلز پارٹی وہ واحد جما عت ہے بقول پیپلز پارٹی کے کہ جس کی بنیاد ی تعلیم اور وعد ہ روٹی ، کپڑ ا اور مکان ہے سنا ہے کہ لو گ بھٹو کی قبر کو ایک مذہبی قائد کی حیثیت سے پو جتے ہیں اپنی حاجتیں ما نگتے ہیں بلا و ل بھٹو کی حفاظت زیا دہ اہم اور ضروری تھی بسمہ مر گئی پر و ٹوکول بھی آخری کوئی چیز ہو تی ہے ایک بسمہ مر گئی تو کیا ہو ا ؟ یہ تو میڈ یا کی نظر میں آگئی ور نہ نا جانے ہر رو ز کتنی بسمائوں کو یہ سیاسی عفریتں نگل لیتی ہیں مگر ریا ستی طاقتواروں نے ہمیشہ مظلوموں کی آواز کو کچل دیا ہے ” جب کسی طاقتوار کو اس کے جرم کی سز ا نہیں دی جاتی تو وہ سز ا پور ے سما ج پر تقسیم ہو جاتی ہے ”قیصر روم نے امیر المومنین حضرت عمر کی خد مت میں اپنا ایک ایلچی بھیجا تا کہ وہ حضرت عمر کی صورت و سیر ت دیکھ کر آئے وہ ایلچی جب مدینہ منور ہ پہنچا تو مسلمانوں سے پو چھا (این الملک ) یعنی تمہار ا با دشا ہ کہا ں ہے
مسلمانوں نے کہا ہمارا با دشاہ نہیں ہمارا امیر ہے اور ابھی ابھی دروازے سے با ہر تشر یف لے گئے ہیں ایلچی با ہر نکلا تو حضرت عمر کو دیکھا کہ دھوپ میں سو رہے ہیں درہ سر کے نیچے رکھا اور پیشانی ِ نور سے ایسا پسینہ بہا ہے کہ زمین تر ہو گئی جب یہ ہا ل دیکھا تو اس کے دل پر بڑ ا اثر ہو ا اور دل میں کہنے لگا تمام دنیاکے بادشاہ جس کی ہیبت سے لرزہ بر اندام ہیں تعجب ہیں کہ وہ اس سا دگی سے زمین پر سو رہا ہے پھر کہنے لگا اے مسلمانوں کے امیر آپ نے عدل کیا اس وجہ سے بے کھٹکے سو ئے اور ہمار ا بادشاہ ظالم اور بد دیانت ہے اسلئے انہیں سنگین حصاروں میں بھی نیند نہیں آتی میں گواہی دیتا ہے کہ آپ کا دین سچا ہے بھٹو کے نواسے کے جاہ جلا ل نے دس ما ہ کی بچی کو مو ت کی نیند سلا کر یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کی جما عت ظلم پر قائم ہے سینئر و ز یر سندھ غفار نے بجا فرمایا کہ بلا ول بھٹو کی حفاظت زیا دہ ضروری اور اہم ہے
سلطان صلاح الدین ایو بی کہتے ہیں کہ جب حکمران اپنی جا ن و مال کی حفاظت کو ترجیج دینے لگیں تو پھر وہ ملک و قوم کی آبر و کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے مجھے جمہوریت کی سمجھ نہیں آسکی جمہوریت کیا ہو تی ہے ؟سنا ہے کہ جمہوریت کا مقصد عوام کی خوشحالی اور فارغ البالی ہو ا کر تی ہے لو گوں کی حکو مت لو گوں کے ذریعے لو گوں کی خاطر ہو تی مگر یہاں جو عوامی نما ئند ے ہیں ان کا عوام کے ساتھ دو ر تک کا کوئی تعلق نہیں چو ر وں ،ڈاکوئوں ، لیٹروں کی پشت پناہی کر نے والوں یہ عوامی نما ئند ے ہیں فرمان ِعمر ہے کہ اگر میری دور ِ حکو مت میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر کو اس کا بھی حساب دینا ہو گا مگر یہاں ایک شخص کی حفاظت کے لئے اگر سینکڑو ں جا نوں کو قربان کر نا پڑے تو گریز نہیں جا تا آخر وہ کون سے ایسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے ان حکمرانوں کو جان کا خطرہ ہو تا ہے
Unjust
جب حکمران ظالم اور ناانصاف ہوں تو رعایا بغاوت کر تی ہے کیونکہ کفر پر قائم معا شرہ تو چل سکتا ہے مگر نا انصافی پر قائم معاشرہ نہیں عدل پرست حکمرانوں کو اپنی جانوں کی حفاظت کے لئے سینکڑوں مسلح افر اد اور پر و ٹوکول کی ضرورت نہیں ہو تی جیساکہ تاریخ گو اہ ہے کہ فلسطین حضرت عمر کے دور میں فتح ہو اتھا اس وقت اس علا قے پر سلطنت ِ روم کی حکومت تھی جو کہ کیتھولک عیسائی تھے فسلطین کے بعض علا قے جنگ سے اور بعض علا قے بغیر جنگ سے فتح ہو ئے تھے یر و شلم بغیر جنگ کے فتح ہو ا یہاں کے پا دریوں نے درخواست کی کہ اگر مسلمانوں کے خلیفہ خودآجائیں تو ہم بغیر کسی جنگ کے شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے حضرت عمر نے وہاں کا سفر کیا اور عیسایوں کو مکمل مذہبی آزاد ی دیتے ہوئے شہر اسلامی سلطنت کا حصہ بنا حضرت عمر نے اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کو سینے کے لئے سوئی دھاگہ اور ایک سواری بیت المال سے لی آ پ نے دو سواریاں لینا گوارہ نہیں فرمایا بار ی بار ی کبھی غلام سو ار ہو تا تو کبھی آپ بیت المقد س کے قریب پہنچے تو غلام کی باری آگئی غلام نے قسم دے کر آپ کو کہا آپ سوار ہو جائیں لیکن آپ نے انکا ر کر دیا
عیسائی مذہبی راہنمائوں نے شہر سے با ہر آپ استقبال و احترام کیا مہمان نوازی کے بعد کہنے لگے ”آپ ہی وہ شخص ہیں جن کے اوصاف ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھے ہیں جو بیت المقد س کو فتح کر ے گاوہ خو د اس شہر میں پید ل اور اُس کا غلام سواری پر داخل ہو گا اور اس کے کپڑ وں پر 17پیوند لگے ہوں گے بعد ازاں بیت المقدس کے بڑے راہب صفر ونیوس نے شہر کی چابیاں آپ کے حوالے کر دی 22لاکھ مر بع میل پر حکو مت کر نے والے حضرت عمر کا پر وٹو کو ل اور ایک معمولی ریا ست کے نواب زادے کا پر وٹوکول یہ ہیں غریبوں کے لیڈ ر ہائے افسو س میں نے اپنی زند گی میں کبھی کسی غریب کو انصاف ملتے نہیں ہیں دیکھا کیونکہ غریب کا سب سے بڑ ا جرم اس کی غربت ہو تی ہے اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لو گ بد لنا نہیں چاہتے ہمیں غلامی راس آچکی ہے کل تک ہم فر نگیوں ، ہند ئوں کے غلام تھے
آج ان وڈیرے سائیں ، جاگیر داروں کے غلام ہیں اگر تیونس ، فرانس ، ایر ان کے عام باہمت نہتے شہر ی صدیوں سے قائم ظالمانہ نظام حکو مت کا جڑ سے خاتمہ کر سکتے ہیں تو ہم کچھ کیوں نہیں کر سکتے ؟ کہتے ہیں کہ اگر جنگل کی ساری چیڑیاں اکٹھ کر لیں تو پھر شیر کی کھال ادھیڑ کر رکھ دیتی ہیں بسمہ بیٹا تم رب سے یہ ضرور کہنا کہ تمہارے قاتل بڑے با اثر اور طاقتوار ہیں تم جیسی کئی بسمائوں کو نگل چکے ہیں عز توں سے کھیل چکے ہیں مظلوموں اور حق کی آواز بلند کرنے والوں کو مو ت کی نیند سلا چکے ہیں اپنے اقتدار کی خاطر لاکھوں قتل کر چکے ہیں یہ بڑے بے حس اور ظالم ہیں یہ کسی کی نہیں سنتے یہ اند ھے ، گو نگے اور بہر ے ہیں ان کی درو دیوار اور گاڑیاں سائونڈ پروف ہیں وہاں پر مظلوموں ، بے بسوں ، لا چا روں کی آہ ِ پکا ر سنائی نہیں دیتی۔