تحریر: عفت وہ بڑے غور سے ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ ٹکائے پھول پہ بیٹھی تتلی کو غور سے دیکھ رہی تھی اس کے کھلتے بند ہوتے پروں کے رنگ اسے بہت بھائے بے اختیار دل میں ان کو چھونے کی خواہش پیدا ہوئی ۔تتلی کو غالبا اس کے ارادے کی خبر ہو چکی تھی وہ جھٹ سے اڑی اور دوسرے پھول ہی جا بیٹھی ،بچی اس کے پیچھے بھاگی ۔جہاں تتلی جاتی بچی اس کے پیچھے جاتی ۔تتلی کے آگے لا محدود فضا اور آسمان تھا جس کی حد بندی کسی علاقے سے مشروط نہ تھی مگر انسان حد بندی اور علاقہ بندی کا قائل ہے ۔وہ ننھی بچی بھی ان حد بندیوں کے قوانین سے نابلد تھی اس لئے اس لکن میٹی کے کھیل میں وہ اپنے گھر اور علاقے سے بہت دور نکل آئی ۔تتلی اسے چھب دکھا کر نجانے کہاں چھپ گئی تھی اور اب ڈھلتے سورج کی روشنی میں وہ دس سالہ بچی انجانی جگہ پر کھڑی تھی۔
وہ راستہ بھول چکی تھی شام ہو گئی تھی اب اسے خوف آنے لگا تھا گھر کی یاد میں بہنے والے آنسووں نے گالوں پہ لکیریں بنا دیں تھیں وہ ہمت کر کے چلتی رہی بہت دور اسے مکانات دکھائی دیے جن سے دھواں نکل رہا تھا آگ جلنے کے احساس نے اس کو بھوک کا احساس دلایا اس نے دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا اور اب اسے بھوک لگ رہی تھی مگر ہر چیز پہ ایک احساس غالب تھا کہ وہ اپنے گھر کا رستہ بھول چکی تھی اور کھو گئی تھی۔ اسے پگڈنڈی پہ چلتے ہوئے بیلوں کی گھنٹیاں بھی سنائی نہ دیں ۔بیل گاڑی پہ دودھ کے خالی ڈرم لادے کرم دین نے اس کے پاس آ کے بیل گاڑی روکی اور نیچے اتر آیا ۔پتر کہاں جانا ہے؟ کدھر سے آئی ہو؟ بچی نے کوئی جواب نہ دیا بس سہمی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ جواب نہ ملنے پہ کرم دین نے اسے گود میں اٹھایا اور بیل گاڑی میں سوار کر دیا ۔کواڑ کھول کر گھر داخل ہوا ۔صحن میں تنور پہ روٹی لگاتی زینب کے ہاتھ رک گئے وہ کرم دین کی گود میں اٹھائی بچی کو دیکھنے لگی ،یہ کون ہے احمد کے ابا؟ اس نے حیرانی سے سوال کیا۔
پتہ نہیں بھلی لوک راستے میں ملی اکیلی رو رہی تھی کچھ بولتی بھی نہیں شاید ڈری ہوئی ہے اس کا ہاتھ منہ دھلا کے روٹی پانی دے پھر پوچھتے ہیں ، کرم دین بچی کو گود سے اتار کر نلکے پر ہاتھ منہ دھونے لگا ۔کھانا رکھ کر زینب نے بچی کو بلایا آ پتر روٹی کھا لے ۔بچی بہت بھوکی تھی ساگ کے ساتھ بڑے بڑے نوالے لینے لگی ۔کھانے کے بعد کرم دین اپنا حقہ لے کر بستر پہ جا بیٹھا دوسری چارپائی پہ زینب اور بچی بیٹھی تھیں جب کہ دو سالہ احمد باپ کے کندھوں پہ جھول رہا تھا ۔ پتر کون ہے تو اور کہاں سے آئی ہے ؟مجھے بتا میں صبح تجھے تیرے گھر چھوڑ آوں گا تیرے ماں باپ پریشان ہونگے ،کرم دین نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا ۔بچی نے کچھ اشارے کیے جو کرم دین اور زینب کی سمجھ میں نہ آسکے مگر وہ اتنا جان گئے کہ بچی گونگی بہری ہے ۔احمد کے ابا اب ہم کیا کریں اس کو اپنے گھر کا بھی نہیں پتہ اور نہ یہ بول اور سن سکتی ہے زینب نے فکر مندی سے کہا ۔ ہمم کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا میں اس کو کل شہر لے جائوں گا۔
Edhi Centre
اگلی صبح کرم دین نے سارا معاملہ دکان والے حاجی صاحب کو بتایا ۔کرم دین ہم اس کے ماں باپ کو نہیں ڈھونڈ سکتے تو اسے ایدھی سنٹر چھوڑ آ، وہ لوگ اس کے ماں باپ کو ڈھونڈ لیں گے انہوں نے کئی بچھڑے ہووں کو ملایا ہے ۔اگر یہ بول یا سن سکتی تب بھی تھا ہم اس کی زبان نہیں سمجھ سکتے ۔بات کرم دین کی سمجھ میں آگئی اور وہ ایدھی سنٹر گیا اور ساری بات بتا کر بچی کو ان کے حوالے کر آیا ۔تتلی کا پیچھا کرنے والی بچی گائوں سے شہر اور پھر کراچی پہنچ گئی ۔جہاں اسے ایدھی سنٹر میں خوش آمدید کہا گیا ۔وقت کا کام گزرنا ہے سو گذرتا چلا گیا ایدھی ہوم میں اس کی پرورش اس طرح ہوئی جیسے ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے بلقیس ایدھی نے اسے ماں کا پیار دیا ۔ایدھی صاحب نے باپ کا فیصل ایدھی نے بھائی کا ۔کچھ عرصے بعد بلقیس ایدھی پہ یہ حقیقت کھلی کہ بچی مسلمان نہیں ہندو ہے۔
مگر اس کے باوجود اسے وہ اپنائیت ملی جو اسلام اور انسانیت کا تقاضہ تھی ۔بلقیس ایدھی نے اس کی فرمائش پر ایدھی فائونڈیشن کی تیسری منزل پہ اسے ایک کمرے میں مندر بنا کے دیا گیا جہاں وہ اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادت کرتی ۔اسلام کسی مذہب کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ مملکت خداداد پاکستان میں ہر فرد کو اس کے عقائد کے مطابق عبادت کی اجازت ہے یہ بات اس ثبوت کے لیے کافی تھی کہ ایک مسلمان گھرانے میں ایک ہندو لڑکی عزت احترام کے ساتھ رہتی تھی جہاں اس کی جان و عزت محفوظ تھی وہ ہندو ہونے کے باوجودان کے لیے اچھوت نہیں تھی بلکہ بیٹی کی طرح پیاری تھی ،بلقیس ایدھی نے سب کو کہہ رکھا تھا کہ وہ جوتے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوں کیونکہ ہماری بیٹی برا مناتی ہے انہوں نے اس کا نام گیتا رکھا۔
Bajrangi Bhaijaan
ان کی خواہش تھی کہ کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اس کی شادی کر دیں انہوں نے اشاروں میں یہ بات گیتا کو بتائی تو گیتا نے ہاتھ سے ہوائی جہاز کا اشارہ کیا اور پھر ماتھے کے سندور اور تلک اور پھروں کے اشارے کیے مطلب وہ انڈیا جانا چاہتی ہے اور وہاں شادی کرنا چاہتی ہے۔ انڈیا کے سفارت خانے سے رابطہ ہوا اور کئی ماہ کی کوشش رنگ لائی ۔انہی دنوں بجرنگی بھائی جان ریلیز ہوئی اس کی کہانی گیتا کی کہانی سے ملتی جلتی تھی یا اس پر ہی بنائی گئی تھی۔ جب معاملہ عوام تک پہنچا تو گیتا کے کئی دعوے دار منظر عام پر آگئے ۔گیتا کے پاس ایک تصویر تھی جس میں اس نے اپنے خا ندان کو شناخت کیا اور ایک کو اپنا والد اور ایک کو بھائی کے طور پر شناخت کیا۔
یہ بات اتنی آسان نہین جتنی بظاہر نظر آتی ہے جس فیملی نے گیتا کو شناخت کیا اس کے مطابق جب گیتا گم ہوئی تب وہ شادی شدہ تھی اور اس کا ایک بچہ بھی تھا جبکہ ایدھی فائونڈشن کا کہنا ہے کہ جب گیتا ملی تب وہ دس گیارہ برس کی تھی ،گیتا کی ماں نے دعوے کے ثبوت میں موبائل میں محفوظ ایک تصویر بھی دکھائی جس میں گیتا کے ساتھ ایک بچہ بھی دکھائی دے رہا ہے گیتا کی ماں اور بھائی کا کہنا ہے اس کی بہن کا نام حرا ہے جو دس برس قبل جالندھر کے علاقے کرتارپور کے علاقے سے دس برس قبل لا پتہ ہوئی تھی ۔بھارت کے حکام نے ڈی۔این۔اے کے ٹیسٹ کے بعد ہی اس معاملے کو حل کرنے کا سوچا ہے۔
Geeta
گیتا کا خاندان سے ملن تو ہو گیا مگر بہت سی باتیں جواب طلب ہیں جس میں گیتا کی ماں کا گیتا کے شادی شدہ ہونے کا دعوی اور ایدھی فائونڈشن کا کہنا کہ انہیں گیتا گیارہ سال کی بچی کے طور پہ ملی تھی۔ یہ بات اچھنبے سے کم نہیں۔ اب معاملہ بھارتی حکام کے ہاتھ میں ہے دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں ؟ پاکستان اور ایدھی فائونڈشن نے اپنا حق ادا کر دیا اب بھارت کا رویہ کیا ہوتا ہے کیا وہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دے کر ملک دشمنی کا ثبوت دے گا یا دوستی کی راہ ہموار کرے گا ؟؟۔