ماں کے قدموں تلے جنت ہے

Mother

Mother

تحریر: سجاد علی شاکر: لاہور
ماں اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیئے ایک عظیم نعمت ہے۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیںہے۔ ماںکے بغیر اس دنیا میں کچھ بھی نہیںہے۔ ماں کائنات میں انسانیت کی سب سے قیمتی متاع اور عظیم سرمایہ ہے۔ اسلام میں اولاد کی پوری زندگی ماں کے تقدس، اس کی عظمت کے اظہار اور خدمت واطاعت کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے لیئے کسی دن کو مخصوص کرنا اس کی روح کے منافی ہے۔ اسلام میں ہر سال ، ہر مہینہ ، ہر دن اور ہر لمحہ ماں کی خدمت اور اطاعت کے لیئے وقف ہے”۔ مقصود کائنات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مائوں کے قدموں تلے جنت ہے” ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کی محبت کے سامنے ہرانسان کی محبت کم ترہے،ماں جیسی محبت،خلوص اور ایثارکوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ ماں اپنا وجود کاٹ کر، اپنے حصے کی خوشیاں چھوڑ کراپنی اولاد کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں اوربڑے بڑے ارادوں میں ان کی مددگار ہوتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کے سامنے صرف اورصرف اولاد کی بہتری اوراس کی خوشی ہوتی ہے۔ماں کی عظمت کااس سے بڑاثبوت کیا ہوگا کہ اللہ کریم جب انسان سے محبت کادعویٰ کرتاہے تواس کے لیے محبت کی مثال ماں کوبناتاہے اور کہتاہے کہ ”میں انسان کے ساتھ سترماؤں سے زیادہ محبت کرتاہوں۔”

یعنی بے پناہ محبت کرتاہوں۔دوسری جانب ہمارے ر سول ۖ کافرمان ہے کہ”ماں کے قدموں تلے تمھاری جنت ہے۔” اس فرمان سے ماں کے مقام کااندازہ ہوتاہے کہ جوبھی شخص اپنی ماں کی خوشی کاخیال کرتاہے،اس کااحترام کرتاہے اوراس سے محبت کرتاہے تواللہ تعالیٰ اْس کے لیے جنت لکھ دیتے ہیں۔ماں کی عظمت و شان کا اندازہ و اہمیت والی دو جہاں سرکارِ مدینہ کے اس فرمانِ عالی شان سے لگا سکتے ہیں کہ سرکارفرماتے ہیں کہ اگر میری والدہ ماجدہ حیات ہوتیں میں عشاء کی نماز کیلئے کھڑا ہوتا ماں کی آواز آتی کہ ”محمدۖ” میرے پاس آئو تو میرا سر اگر سجدہ میں بھی ہوتا تو میں اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔ یہی نہیں بلکہ سرکار کے عاشقوں نے بھی اپنی ماں سے محبت کی حد کردی حضرت اویس قرنی کی رسول اللہ سے محبت لازوال سے ہر کلمہ گو مسلمان واقف ہے۔ جنہوں نے اپنی نابینا ماں کی خدمت کی خاطر اللہ کے رسول ۖسے ملنے و دیدار کے سارے ارمان دل میں رکھ لئے مگر اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔

Madinah

Madinah

کوئی کوتاہی نہ برتی۔بلکہ ایک مرتبہ اپنی ماں سے اجازت لیکر مدینہ طیبہ تشریف لے گئے کہ آج دل کے سارے ارمان پورے ہوں گے۔ سرکارِ دو جہاں کا دیدار ہوگا۔ ماں نے انہیں تھوڑے وقت کیلئے اجازت دی۔ جب مدینہ طیبہ پہنچے دروازے پر دستک دی۔ ام المومنین حضرت عائشہ نے دروازہ کھولا سرکار پاک کے متعلق سوال کیا ِ،فرمایا گیا ابھی تھوڑی دیر تک تشریف لے آئیں گے فرمانے لگے میں انتظار نہیں کر سکتا میری والدہ نے اتنی ہی اجازت دی تھی۔ حضور اکرم ۖکی واپسی پر حضرت عائشہ فرماتی ،آج عجیب واقعہ ہوا ایک شخص حضرت اویس جنابۖ سے ملاقات کیلئے آئے اور انتظار بھی نہ کیا۔ واپس چلے گئے۔ ایک طرف سرکارِ مدینہ کی محبت اور دوسری طرف ماں کا حکم، اسی کشمکش میں واپس چلے گئے۔ سرکارِ پاک تو دلوں کے راز بہتر جانتے تھے۔ مسکرا دیئے۔ حضرت اویس قرنی کا یہ عمل بارگاہِ رسالت اور بارگاہِ رب العزت میں اتنا مقبول اور پسند کیا گیا کہ ظاہری دیدار رسالت نہ ہونے کے باوجود صحابی رسول کے درجے پر فائز ہوگئے۔

جہاں لفظ ماں آیا سمجھ لیا کہ ادب کا مقام آیا میری نظر میں تخلیق کائنات کے وقت اللہ رب العزت نے اس پاک ہستی کو یہ سوچ کر بنایا کہ جب انسان کو دنیا میں کہیں سکون کی دولت نہ ملے گی تو اپنی ماں کی آغوش میں آکر اپنی سوچوں آہوں اور دکھوں کو نثار کرے گا اور ایسی راحت محسوس کرے گا جو اسے کہیں نہ ملی ہو گی ماں جیسی ہستی اس کائنات میں اس کائنات کا ایک جز ہے یہ ہستی اپنے اندر ایک محبت کا سمندر لیئے ہوئے ہے اگر اولاد کو ذرا سا دکھ میں دیکھا فورا محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور اس دکھ کو اپنی لہروں میں بہا کر محبت کا سکھ لے آئی اور پھر سے جینے کی کرن ابھار دی اگر تاریخ میں جھانکا جائے تو چاہے ماں جتنا ہی اولاد سے خفا ہو مگر دل سے نہیں ہوتی مگر مجھے تو اس ہستی کے ڈانٹ میں بھی محبت کا اظہار نظر آتا ہے خوش نصیب ہیں وہ جن کی ماں زندہ ہے۔

Parents' Rights

Parents’ Rights

میرا ایمان ہے کہ کبھی ماں کسی کو دل سے بددعا نہیں دیتی اور اگر کسی نے اس ہستی کو دکھ دیا اور وہ ناراض ہو گئی تو سمجھ لو کہ دنیا سے بھی وہ شخص نامراد گیا اور آخرت میں بھی نامراد ،رہا اس لیے اس ہستی کا مقام اس کائنات سے بھی بڑا ہے اور محبت کی انتہا بھی اسی ہستی میں ہی ہے اسلام نے اولاد کو ماں باپ کے لیے کئی حکم دئیے ہیں، جن کو ماننا ان کے لئے اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا. اسلام کہتا ہے، ‘اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو. خدا سے ان کے لئے دعا کرو کہ وہ ان پر ویسا ہی کرم کرے جیسا کہ بچپن میں اس کے والدین نے اس پر کیا. اپنے ماں باپ کے احترام میں کچھ باتیں شامل ہیں: ان سے سچے دل سے محبت کریں. ہر وقت انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔

اپنی کمائی دولت، مال ان سے نہ چھپائیں. ماں باپ کو ان کا نام لے کر نہ پکاریں. اللہ کو خوش کرنا ہو تو اپنے ماں باپ کو محبت بھری نگاہ سے دیکھو. اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرو گے تو تمہارے بیٹے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے. ماں باپ سے ادب سے بات کریں، ڈانٹ ڈپٹ کرنا ادب کے خلاف ہے. دنیا میں مکمل طور پر ان کا ساتھ دو. ماں باپ کی نافرمانی سے بچو، کیونکہ ماں باپ کی خوشنودی میں اللہ کی خوشنودی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی. اگر چاہتے ہو کہ خدا تمہارے کام میں فائدہ کرے۔

تو اپنے ماں باپ سے رشتہ داروں سے اچھا سلوک بنائے رکھو ۔کبھی کبھی قبر پر جایا کرو، اور ان کے لئے دعا کرو. دعا کرو کہ اے اللہ ان پر ویسا ہی رحم کرنا جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کے وقت کیا تھا. آج ہم اپنی انہی مذہبی باتوں سے بھٹک گئے ہیں، ہم اپنے ماں باپ کو احترام دینے کے بجائے ہم اپنی دنیاوی خواہشوں کے لئے ان سے لڑتے جھگڑتے ہیں، مرنے کے بعد ان کی قبر کی زیارت تو بہت دور کی بات ہے ان کے لئے کوئی صدقہ خیرات تک نہیں کرتے. بڑھاپے میں ان کی خدمات کے بجائے اپنے دنیا کے فضول کاموں میں لگے رہتے ہیں. اللہ سے میری یہ دعا ہے کہ وہ ہمیں ان گناہوں سے بچائے۔

Sajjad Ali Shakir

Sajjad Ali Shakir

تحریر: سجادعلی شاکر: لاہور
فنانس سیکرٹری پنجاب (کالمسٹ کونسل آف پاکستان)
sajjadalishakir@gmail.com.03226390480