بچہ جمورا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Bacha Jamora

Bacha Jamora

بچہ جمورا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر۔ ریاض احمد مغل
میں کون۔۔۔عامل
تو کون ۔۔۔معمول
عامل۔۔۔جو کچھ پوچھوں گا بتلائے گا
معمول۔۔۔جی بتلائوں گا
عامل۔۔۔گھوم جا
معمول۔۔۔گھوم گیا
عامل۔۔۔کیا دیکھا
معمول۔۔۔۔۔رفیقوں سے رقیب اچھے جو جل کر نام لیتے ہیں گلوں سے وہ خار اچھے جو دامن تھام لیتے ہیں
عامل۔۔۔۔۔بچہ! آج کیا جلنے جلانے والی شاعری کررہے ہو، کیا ماجرا ہے؟
معمول۔۔۔۔استاد جی! کچھ نہ پوچھیں۔ حوص اقتدار کی جنگ میں تمام سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو فتح کرنے کی ٹھان لی ہے۔کل تک جو رفیق تھے آج وہ رقیب بنے بیٹھے ہیں ، حالانکہ ایک قائد ایک جماعت اور ایک ہی نشان شیر پر الیکشن لڑا، مگر راہیں جدا جدا ہوگئی ہیں۔

عامل۔۔۔۔۔بچہ! تو جھگڑا کاہے کا ہے،ضلع جہلم تو مسلم لیگ(ن) کا قلع ہے یہ کیوں آپس میں دست و گریباں ہیں؟ معمول۔۔۔۔۔استاد جی! سپریم کورٹ بھی عجب فیصلے کرتی ہیم اتنے عرصہ سے بلدیاتی الیکشن نہیں ہورہے تھے تو سکون تھا ۔ایم پی اے اور ایم این از کی بادشاہی تھی ، کوئی جھگڑا نہ تھا مگر الیکشن کو ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے ہیں اور حلف بھی ابھی تک نہیں اٹھایا ،تو پانی پت جیسی لڑائی شروع ہوگئی ہے ، جب حلف اٹھالیں گے تو کیا ہوگا؟ عامل۔۔۔۔ بچہ! یہ بتا کہ میونسپل کمیٹی اور ضلع کونسل کی چیئرمین شپ کا کیا رولا ہے؟ معمول۔۔۔۔استاد جی ! سپریم کورٹ نے غلط فیصلہ نہیں کیا تھا، وہ تو چاہتی تھی کہ اقتدار کے اصل حقدار تو نچلی سطح والے ہوتے ہیں، اسی لئے بلدیاتی نمائندے چنے جاتے ہیں جو کہ عوام کے مسائل انکی دہلیز پر حل کرتے ہیں ۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کا کام تو قانون سازی ہوتا ہے ،اصل سیاست تو بلدیاتی نمائندوں کی ہوتی ہے۔

عامل۔۔۔۔۔بچہ! پھر تو اصل طاقت بھی یونین کونسل ، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ممبران کی ہوتی ہوگی ناں؟ معمول ۔۔۔۔جی استاد جی! اسی اصل طاقت کو حاصل کرنے کا ہی تو جھگڑا چل رہا ہے ، اسی طاقت کے حصول کیلئے اپنے پرائے کررہے ہیں، مسلم لیگ (ن)جماعت کے ٹکٹ ہولڈر جیتنے کے بعد اپنی اپنی جنگ شروع کر چکے ہیں۔ عامل۔۔۔۔ بچہ! یہ بتا کہ کون کس کی حمایت اور طاقت کا دعویدار ہے؟ معمول۔۔۔۔ ڈانگ تے بھتنا دو جنڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں تے لالہ اکلے عامل۔۔۔۔ بچہ! اس کا کیا مطلب ہے ؟ معمول۔۔۔۔استاد جی! الیکشن سے پہلے فیصلہ ہوا تھا کہ ضلع کونسل کی چیئرمین شپ کیلئے ایم این اے نوابزادہ اقبال مہدی کے بیٹے راجہ مطلوب مہدی کو سپورٹ کیا جائیگا، باقی میونسپل کمیٹیوں میں حصہ بقدر جصہ فیصلہ کیا جائیگا۔

عامل۔۔۔۔بچہ! جب فیصلہ ہوگیا تو پھر کیا رولا؟ معمول۔۔۔۔ استاد جی! ضلع کونسل کے چیئرمین کے پاس بہت سے اختیارات آگئے ہیں، تمام محکمے اس کے جواب دہ ہوتے ہیں ، اصل طاقت تو ایم پی ایز اور ایم این ایز کی بجائے ان کے پاس ہوگی ناں۔ اسے طاقت کے حصول کیلئے ضلع کے چاروں ایم پی ایز اور تینوں ایم این ایز کوشاں ہیں ، ہر کوئی چاہتا ہے کہ ضلع کونسل کا چیئرمین اس کے گروپ سے ہو۔

Options

Options

عامل ۔۔۔۔۔بچہ! تو اس میں کیا جھگڑا ، جس کے پاس زیادہ ووٹیں ہوں وہ لے لے؟ معمول۔۔۔۔استاد جی! یہاں اب نئی ڈنڈی ماردی گئی ہے ، کہ اوپر سے احکامات آگئے ہیںکہ کسی ایم پی اے یا ایم این اے کا رشتہ دار چیئرمین نہیں بن سکتا؟ عامل۔۔۔۔بچہ! یہ تو ٹھیک ہے ناں ۔ سب کا حق ہے؟ معمول۔۔۔۔ استاد جی! ایک گھر اتنی سیٹیں لے لے اور باقی کچھ نہ بچے تو دوسرے گھر کی باری آئے تو رکاوٹیں لگ جائیں یہ بھی تو ناانصافی ہے ناں! عامل۔۔۔۔بچہ! بائولا ہوگیا ہے کیا؟ کس کی بات کررہا ہے ؟ معمول۔۔۔۔استاد جی! بتایا تو تھا کہ ایم این اے اقبال مہدی کا بیٹا راجہ مطلوب مہدی جو ضلع کنسل لا امیدوار ہے ، یہ بھی اپنی یونین کونسل سے بھاری اکثریت سے جیت کر چیئرمین منتخب ہوا ہے، اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔

عامل۔۔۔۔ بچہ! ہاں اب سمجھ آئی کہ اصل جھگڑا کیا ہے ، یہ بتا کہ کون کس گروپ کے ساتھ ہے؟
معمول۔۔۔۔۔استاد جی! ایم این ایے راجہ اقبال مہدی حلقہ این اے 63کے ساتھ نگہت میر ایم این اے، مہر محمد فیاض ایم پی اے حلقہ پی پی 25، چوہدری نذر گوندل ایم پی اے حلقہ پی پی 27ایک طرف ہیں جبکہ ایم این اے چوہدری خادم حسین حلقہ این اے 62کے ساتھ صرف انکا بھائی چوہدری لال حسین ایم پی اے حلقہ پی پی 26ہے جبکہ حلقہ پی پی 24کا ایم پی اے راجہ اویس خالد خاموش اور چپ چاپ تماشہ دیکھ رہا ہے ، ابھی تک سب کو پتر دے رہا ہے ۔

عامل۔۔۔۔ بچہ! بچہ تو جو تم گن گنا رہے تھے کہ ڈانگ تے بھتنا دو جنڑے میں تے لالہ اکلے اسکا کا مطلب ہے؟ معمول۔۔۔۔ استاد جی ! اسکا مطلب یہ ہے کہ گھرمالہ گروپ جو کہ اپنے آپکو ضلع کی سیاست کا علمبردار /شہنشاہ سمجھتے تھے ، اس الیکشن کے بعد اکیلے رہ گئے ہیں ، ہر طرف ہاتھ پائوں مارہے ہیں مگر ابھی تک انکے ہاتھ کچھ نہیں لگ رہا ، جب شام کو گھر بیٹھتے ہیں تو پھر دونوں لالے اکلے بیٹھ کر ایک دوسرے کو ہی دیکھے جاتے ہیں۔ تیسرا کوئی نظر نہیں آرہا ، یہ پھر سوچتے ہیں کہ میں تے لالہ اکلے۔۔۔ عامل۔۔۔۔ بچہ! تو اسکا فیصلہ کون کریگا؟ معمول۔۔۔۔استاد جی! ہمیشہ کی طرح وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے کورٹ میں گیند ڈالدی گئی ہے۔

nawaz sharif

nawaz sharif

عامل۔۔۔۔۔۔بچہ! ووٹ تو منتخب ممبران نے دینے ہیں ۔وزیراعلیٰ کیا کرے گا؟ معمول۔۔۔۔۔استاد جی! اس ضلع کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کی عوام نے ابھی تک کسی مقامی سیاستدان کو اپنا لیڈر نہیں بنایا بلکہ میاں نوازشریف کو ہی اپنا لیڈر مانا ہے ، اس کے نام پر سب عوام سے ووٹ لیتے رہے ہیں اور اسی کے نامزد کردہ امیدوار اور ٹکٹ ہولڈر کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرتے رہے ہیں ، اسی کے نام پر گرانٹیں لیتے رہے ہیں تو پھر ضلع کونسل کا چیئرمین بھی تو انہی کا نامزد کردہ ہوگا ناں؟ عامل۔۔۔۔۔بچہ! اسکا مطلب یہ ہوا کہ جسیے عوام کہتی ہے کہ ہماری ووٹ کی کوئی قیمت نہیں ، فیصلے اوپر والوں کے چلتے ہیں تو پھر ان منتخب عوامی نمائندوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ جب ان کے فیصلے بھی اوپر والے ہی کریں؟ مقامی نمائندے سارا سال کیوں دوڑتے رہتے ہیں ؟ تو ان کی اپنی حیثیت کیا ہے ؟

معمول۔۔۔۔استاد جی! اسی لئے تو ہمارا ضلع پیچھے رہ گیا ہے کہ یہاں ہر مرضی اوپر والوں کی چلتی ہے، اس میں قصور بھی تو ہمارا اپنا ہے ، عرصہ دراز سے ایک ہی پارٹی کے ساتھ رہنے والوں کو بھی نظر انداز کرکے اوپر والے کو لیڈر گردانا گیا ، حالانکہ اس اوپر والے کو لیڈر ہمارے نمائندے نے ہی بنایا تھا، مگر ان کی بے وقوفیوں کی وجہ سے وہ ہمارا خیر خواہ بننے کی بجائے امیر المومنین بن گیا ، یہی وجہ ہے کہ آج پھر رات دن ایک کرنے کے باوجود بھی ان کے فیصلے کی طرف دیکھ رہے ہیں، کہ وہ ”کرع” کس کی جانب نکالتے ہیں۔ نوٹ۔ اوپر والوں کی مرضی اور منشاء کی وجہ سے ہی تو آج ایک ایس ایچ او لاکھوں عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کو ملنا بھی گنوارا نہیں کرتا۔ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کب تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اوپر والوں کو سر پر بٹھائے رکھیں گے۔

Riaz mughal

Riaz mughal

تحریر۔ ریاض احمد مغل