تحریر: شاہ بانو میر خدارا ! اپنے بچوں اور بچیوں کی شادیوں سے پہلے ان کے خطرناک بیماریوں کے ٹیسٹ ضرور کروا لیں تا کہ سیکڑوں میں سے کوئی ایک ہی سہی وہ اس ذہنی اذیت کا شکار نہ ہو – یہ بات ایک خاتون کہہ رہی تھیں ان سے تفصیلات معلوم کیں تو پتہ چلا کہ حال ہی میں ان کی بیٹی کی علیحدگی ہوئی ہے- جس میں طبی طور پر لڑکے میں مسئلہ تھا۔
وہ روہانسی ہو کر کہہ رہی تھیں کہ ایسا ظلم کیوں کرتے ہیں لوگ؟ ان بچیوں کے لئے کون نئی زندگی کی راہیں دوبارہ سے پھولوں سے خوشیوں سے آراستہ کرے گا جو کسی ایسے شخص سے بیاہ دی جائیں جو شادی کے رشتے کو نبھانے کی صلاحیت سے محروم ہوں ؟ خدارا ! اپنے بچوں اور بچیوں کی شادیوں سے پہلے ان کے خطرناک بیماریوں کے ٹیسٹ ضرور کروا لیں تا کہ سیکڑوں میں سے کوئی ایک ہی سہی وہ اس ذہنی اذیت کا شکار نہ ہو – ہمیں مستقبل کے متوازن خاندان کیلئے بچوں کے شادی سے پہلے ٹیسٹ کروانے چاہیے اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
Wedding
اب پاکستان میں کچھ بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات کے منظرعام پر آنے کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے اصرار کر کے خطرناک بیماریوں کے ساتھ دیگر ضروری ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے – جو بہت خوش آئیند ہے – شادی کا رشتہ پاک خاندان گھر کیلئے بنیاد ہے اولاد جیسی نعمت کا حصول ہے –
بے بنیاد رشتے خالی بے جان بے وقعت بے وزن ہوتے ہیں جنہیں اپنے بے بنیاد آغاز کی طرح بے بنیاد انجام کو پہنچنا ہے محفوظ مستقبل کیلئے شادی سے پہلے تمام ٹیسٹوں کا ہونا انتہائی اہم ہے – طبی مسئلہ اگر لڑکے میں ہو تو لڑکی شادی کے بعد نہ جی سکتی ہے نہ مر سکتی ہے – پہلے شادی پر بیٹی کیلئے اچھے نصیب کی دعا کی جاتی تھی۔
Luck
ایسا کوئی سانحہ قسمت میں رقم کر دیا گیا ہو تو صبر اور خاموشی سے اللہ کے فیصلے کا انتظار کریں صبر کے گھونٹ بھرنا کسی کی سفاکی پر اور خاموش رہنا اپنی بیٹی کے دکھ پر آنسوں پر جو سب سے پیاری ہو ایسا تکلیف دہ امر ہے کہ جو نہ بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ کوئی سمجھ سکتا ہے والدین بچی کو دعا دے کر بھیج سکتے ہیں سامان دے کر بھیج سکتے ہیں صبر کی تلقین کر کے ہر حال میں رہنے کا اصرار کر سکتے ہیں والدین وہ سب بیٹیوں کو دیتے ہیں جو ان کے بس میں ہے۔
برداشت صبر توکل قناعت لیکن سب صفات سب ضروریات زندگی کی اشیاء دے سکتے مگر کامیابی کا وہ کلیہ کوئی والدین اپنی بیٹیوں کو نہیں دے سکے جو کامیابی کی نوید ہو وہ ہے -جو آج تک نہ کوئی بادشاہ نہ فقیر دے سکا اپنی بیٹی کو اگروالدین کے پاس یہ ایک کلیہ ہوتا تو وہ اور کچھ نہ دیتے مگر یہ ضرور دے کر بیٹی کو رخصت کرتے جسے ہم کہتے ہیں نصیب۔