تحریر : شاہ بانو میر پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ کو یہ زعم تھا کہ اسکی رعایا بہت خوشحال اور مزے میں ہے – اس خوش فہمی کا سبب اس کا امور سلطنت سے لاتعلق رہنا تھا – ایک بار وہ قافلے کے ساتھ جنگل کی جانب بڑھ رہا تھا کہ راستے میں ایک پُرفضا مقام آیا اس خوبصورت پہاڑی علاقے کا قدرتی حسن بہت دلکش تھا اور اس حسن کو دوبالہ کرتی ہوئی وہ بانسری کی مدھُر تانیں تھیں جو کسی جانب سے آ رہی تھیں . بادشاہ نے قافلے کو رکنے کا اشارہ کیا اور ہرکارے دوڑائے کہ جا کر اس بانسری بجانے والے کو اس کے سامنے حاضر کریں . کچھ ہی دیر بعد ایک سرخ و سپید رنگت سے مزین خوبصورت نوجوان بچہ بانسری کے ساتھ حیران و پریشان حاضر ہو گیا – بادشاہ نے اسکی بانسری کی تعریف کرتے ہوئے اپنے وزیر اعظم جو اکثر بادشاہ کی توجہ مبذول کرواتا رہتا تھا امور سلطنت کی جانب بڑی رعونت سے بولا دیکھا میری رعایا کس قدر مطمئین ہے کہنے کو یہ ایک غریب چرواہا ہے۔
ذرا اس کے سیب جیسے سرخ دہکتے ہوئے گال دیکھو اسکی اچھی صحت دیکھو وزیراعظم دانا انسان تھا جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں بادشاہ نے امان دی تو وزیر اعظم بولا حضور یہ آپ کے دور کی خوشحالی نہیں ہے اس نوجوان کی سادگی ہے شعور کی کمی ہے یہ دنیا اس وادی کو بنا بیٹھا ہے اور قناعت کر چکا باہر کی دنیا وہاں کا وسیع میدان نہیں جانتا اس پر گھر والوں نے کوئی ذمہ داری نہں ڈالی کیونکہ خوشحالی کو دیکھ نہیں سکے اس پر کوئی ذمہ داری ڈالیں اور پھر ملاحذہ فرمائیں اس کی رنگت اور صحت مجھے اجازت دیجئے اس سے ذرا تنہائی میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں اجازت مل گئی وزیراعظم اس نوجوان کو ایک طرف لے گیا۔
چند منٹ اس سے اکیلے میں بات کی اور قافلہ اپنے سفر پر روانہ ہوا ایک ماہ کے بعد شکار سے واپسی پر اسی چراگاہ سے ان کا گزر ہوا اور ان کو کسی بانسری کی تان سنائی نہیں دی وزیر اعظم نے بادشاہ کو اپنا وعدہ یاد دلایا اورحسب وعدہ قافلہ رکوایا اور وادی میں اس نوجوان کی تلاش میں روانہ ہوا ٹھیک ایک مہینے بعد یہیں ملنے کا کہہ کر گیا تھا – کچھ دیر تلاش کے بعد دور درخت کے نیچے ایک زرد چہرے والا انسان بیٹھا دکھائی دیا جو نقاہت کے باعث درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اُس سے اُس بانسری والے کی بابت پوچھا گیا تو اس نے کہا وہ ہی وہ بانسری والا ہے۔
Ancient Nation
بادشاہ کے سامنے جب اسکو پیش کیا گیا تو بادشاہ حیران و ششدر رہ گیا – اس نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہے؟ وزیر اعظم نے کہا عالم پناہ آپ دیکھ لیجیے ذمہ داری اور فکر نے صرف 1 مہینہ میں اس کونچوڑ کر رکھ دیا ہے -ذمہ داری کیسی ؟ تعجب سے سوال کیا بادشاہ نے جی ہاں میں نے اسے الگ جا کر پوچھا تھا کہ وہ کیا کرتا ہے اس نے کہا کچھ بھی نہیں جب جی چاہتا ہے تو بھیڑ بکریاں چرانے آجاتا ہے ورنہ سوتا رہتا ہے میں نے اسکو کہا تھا کہ صرف 1 مہینہ تم صبح سورج چڑھتے ہی ہر روز بلا ناغہ بکریاں چراگاہ میں لاؤ گے اور سورج ڈھلتے ہی واپس ان کو گن کر پورے ریوڑ کو باڑے میں بند کرو گے – میں یہاں بندے چھوڑے جا رہا ہوں جو تم پر نگاہ رکھیں گے ناغہ ایک بھی نہ ہو ورنہ سخت سزا ملے گی اس ایک مہینے کی اس ذمہ داری اور فکر نے اس کا یہ حال کر دیا بادشاہ پہلی بار متاثر ہوا کہ واقعی وہ خود اپنے فرائض منصبی سے لاپرواہ رہا ہے۔
اسی لئے وہ بھی اس نوجوان کی طرح صحتمند اور خوش باش دکھائی دیتا ہے خشیت الہیٰ آج ہم میں کہاں ہے؟ قہار جبار والی صفات کا مالک جو قرآن پاک میں سورت والمحٰصنت میں فرماتا ہے کہ وہ بے شک سزا دینے میں بہت سخت ہے اور بدلہ لینے میں بھی پھر ہمارے دل آج اس کے خوف سے اسکی خشیت سے کیسے اتنے عاری ہوگئے کہ بالکل قرآن سے اسلام سے متصادم زندگی گزار رہے ہیں ؟ جہنم وہ کہ جس میں کھالیں جھلسیں گی نئی چڑہیں گی پھر جھلسیں گی پیپ والا پانی پینے کو دیا جائے گا۔
یہ سب بتا کر ہمیں اللہ کا خوف دلوانا مقصود ہے جس سے آج امت عاری ہوچکی اور قرآن اسلام کو بھول کرغیراسلامی طرزحیات کے ساتھ بار بار اللہ کے انتقام کو زلزلوں سیلابوں کی صورت دکھاتے اللہ اکبر اللہ پاک کے حضور خضوع و خشوع سے گڑگڑا کر دعا کیجئے کہ وہ ہمیں اپنا ڈر اپنا خوف عطا کرے جیسے پیارے نبی ً کو عطا کیا تھا کہ اس قدر روتے کہ جیسے ہناڈی ابال کھا رہی ہو. ہماری بخشش کی ہر نماز کے بعد دعا مانگنے والی یہ عظیم ہستی جو سب نبیوں کی شفاعت فرمائے گی وہ اللہ پاک کےخوف سے تمام عمر لرزتے رہے روتے رہے بخشش طلب کرتے رہے استغفار کرتے رہے – پھر ہم کیوں ان اعمال کو فراموش کر بیٹھے ؟ کیسے دل کو سخت کر کے اسلام سے دور ہوتے گئے ؟ اللہ پاک ہم سب کو اچھے عمل کی توفیق دے اور اللہ کا ڈرخوف اخلاص کے ساتھ دل میں ڈال کر سچی عبادت کر نے والا بنا دے آمین جو قبر میں قیامت میں ہمارے لیئے باعث نجات ہو آمین۔