تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم چند سال قبل پاکستان کے چند مسیحی خاندان موجودہ حالات سے تنگ آ کر تھائی لینڈ، سری لنکا اور ملیشیا ہجرت کر گئے۔ یہ خاندان مزہبی پناہ گزینوں کی صورت میں پاکستان سے مزکورہ ممالک میں پہنچے۔ ان میں سے چند حقیقی پناہ گزین تھے مگر چند خاندان یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں پہنچنے کے لئے پاکستان سے نکلے۔
اس ہجرت کے آغاز میں کچھ لوگ ان ممالک سے یورپ کامیابی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مگر جوں ہی یہ خبر پاکستان میں پہنچی کے تھائ لینڈ سے پاکستانی پناہ گزینوں کو مغربی ممالک قبول کر رہے ہیں تو پھر ایک ہجوم پاکستان سے تھائی لینڈ کی جانب اومنڈ آیا۔ اس ہجوم میں نا صرف مسیحی بلکہ احمدی، شعیہ مسلم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے پناہ گزین بھی شامل تھے۔
Pakistani Christian Refugees
ایجنٹوں کی چاندی ہو گئ۔ اس ملک کا ویزہ جو چند سو روپئے کا تھا مگر اب اس کی قیمت پچاس ہزار سے تجاوز کر گئ۔ لوگوں نے اپنے گھر اور سارا سامان بیچا اور بغیر سوچے سمجھے ملُک چھوڑ گئے۔ تھائی لینڈ میں پناہ کی درخواستیں دی۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو ایک دوسرے کی شکایات کرنے لگے کہ فلاں نے جھوٹ بولا ہے۔ مسیحیوں کے بہت سے گروپ بن گئے۔ آپس میں الجھنے لگے۔ کچھ واقعات تو ایسے بھی ہوئے کہ اگر ایک شخص کو کسی فلاحی ادارے کی جانب سے کوئ مدد مل رہی تھی۔ اور اس شخص کو خبر ملی کہ اس کے دوسرے بھائ کو بھی مدد ملنا شروع ہوئ ہے تو اسے یہ بھی پسند نہ آیا اور جا کر اس کی شکایت کر دی کہ اس کا کیس جھوٹا ہے۔
ان آپسی لڑائیوں نے بھی مسیحیوں کا دیار غیر میں کافی نقصان پہنچایا۔ تھائی لینڈ دنیا کے چند اُن ممالک میں شامل ہے جن ممالک نے اقوام متحدہ کے 1951 کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط نہی کئے بلکہ 1967 کے پروٹوکول کا بھی پابند نہی ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی تھائ لینڈ میں میانمار کے پناہ گزین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میرا موضع چونکہ پاکستان کے مسیحی پناہ گزینوں کے حوالے سے ہے اس لئے میں اس بحث کو سمیٹوں گا۔
اور مسیحی پناہ گزینوں کے حوالے سے جو معلومات مجھ تک پہنچ رہیں ہیں ان پر بات کرونگا۔ تھائ لینڈ کے عقوبت خانوں (ڈیٹینشن سینٹر) میں اس وقت بھی سینکڑوں مسیحی خواتین، کمسن بچے، بزرگ خواتین اور مرد قید و بند کی صوبعتیں برداشت کر رہے ہیں۔
جیل کے ایک کمرے میں جس میں 15 لوگوں کی گنجائیش ہے وہاں 50 لوگوں کو جانوروں کی طرح قید کر دیا گیا ہے۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ ان کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے اور یہ یو این ایچ آر سی کی توجہ کے منتظر ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے سفری کاغزات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لوگ زہنی اور جسمانی طور پر بیمار ہو رہے ہیں۔ ڈ یٹنشن سینٹرز میں خواتین اور بچے جلدی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے کیونکہ ان قوانین کے تحت کم عمر بچوں کو آپ قطئ طور پر حراست میں نہی رکھ سکتے اور اگر حالات ایسے ہوں کہ ماں یا باپ کو ڈی ٹین کرنا پڑے تو محض بچے کی خاطر آپ کو ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو آزاد کرنا ہو گا۔ مگر یہاں تو وہ بچے بھی حراست میں ہیں جو ابھی پیدا نہی ہوئے۔
Christian Refugees
کئ حاملہ خواتین قید کر دی جاتی ہیں۔ ابھی حالیہ واقع میں ایک بچہ اپنی ماں کی کوکھ میں دم توڑ گیا۔ گزشتہ دو ہفتوں میں دو مسیحی جان سے گئے ایک خاتون ثنینہ فیصل جیل کی صوبعتوں کو برداشت نہ کر سکی ۔ ایک کم سن بچے اور شوہر کو چھوڑ کر اس دُنیا سے کُوچ کر گئ۔ ابھی اس کے کفن دفن کی تیاری بھی نہی ہوئ تو ایک اور مسیحی پناہ گزین پرویز غوری بھی جیل کی بیماریوں کا شکار ہو کر جہان فانی سے گُزر گیا۔
ابھی جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں مجھے تھائی لینڈ سے ایک پیغام ملا، تھائی لینڈ سے ایک پاکستانی سماجی کارکن شہزاد بھٹی صاحب نے بتایا کہ ایک اور مسیحی مختار نامی کو ہسپتال میں مل کر آ رہے ہیں۔ اور اب اس کی حالت قدرے بہتر ہے۔ میرے پاس دو ایسے خاندانوں کی خبریں بھی پہنچی ہیں کہ جن کے بچے معزور ہیں۔ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہی ہے۔ کچھ مسیحی ادارے اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ مگر حالات ان کے بس میں بھی نہی ہیں۔ معروف سماجی کارکن فرخ سیف شکایت کرتے ہیں کہ ان تمام حالات کی زمہ دار یو این ایچ آر سی ہے۔
اس وقت یورپ میں شامی پناہ گزینوں کا اضافی بوجھ ہے جس کی وجہ سے دوسرے ممالک کے پناہ گزینوں پر توجہ نہی دی جا رہی ہے۔ 2013 میں میں ڈچ پارلیمنٹ میں بھی اس حوالے سے ایک میٹینگ ہوئ راقم لحروف بھی اس میٹینگ کا حصہ تھا۔ مگر ابھی تک کوئ خاص پیش رفت نہی ہوئ۔ تھائ لینڈ میں پاکستانی مسیحیوں کا کوئ پرسان حال نہی ہے۔ پاکستان میں مسیحیوں کے نمایندے جو کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ وہ ان تمام حالات سے واقف ہیں مگر خاموش ہیں۔
اس خاموشی کی بھی ایک وجہ ہے، ظاہر ہے کہ ان نمایندوں کو مسیحیوں کے ووٹوں کی ضرورت نہی ہے۔ ہمارے موجودہ انتخابی نظام کا شکار اقلیتیں ہیں۔ کیونکہ ان کے نمایندے اقلیتوں کے نام پر منتخب ہوتے ہیں ۔ مگر وہ اقلیتوں کی حقیقی نمایند گی نہی کرتے۔ کیونکہ ہماری سیاسی پارٹیاں ان کو منتخب کرتی ہیں۔
اس لئے یہ اپنے لوگوں کے ووٹوں سے نہی بلکہ سیاسی پارٹیوں کے نوٹوں سے وفاداری کرتے ہیں۔ مسیحیوں کے لئے اب نہ تو بشپ جان جوزف جیسا کوئ لیڈر ہے اور نہ ہی کوئ شہباز بھٹی جیسا راہنما پاکستان میں موجود ہے جو حقیقی معنوں میں مسیحیوں کی نمایندگی کرتے تھے۔