تحریر: چوہدری ناصر گجر جنگ آزادی 1857ء کے بعد ہندوؤں نے ہندی اردو جھگڑے کو ہوا دی جو کہ ہندی اردو جھگڑا 1867ء کے نام سے مشہور ہے۔اسی دور میں بنارس کے ہندوؤں نے الہٰ آباد کو مرکز بنا کر لسانی تحریک شروع کر دی جسکا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا اور عربی رسم الخط کی جگہ دیونا گری رسم الخط اپنانا تھا ۔جسکے بعد ملک بھر میں ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں جسکا مقصد ہر ممکن تحریک کو کامیاب کرنا تھا۔اس وقت ہندوؤں کو اردو زبان سے سب بڑی تکلیف یہ تھی یا ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ اردو زبان کا قصور یہ تھا کہ مسلمانوں کے شاندار ماضی ،ان کے بہادروں ،عالموں ، اولیا ء کرام اور سپہ سالاروں کے کارناموں اور کرداروں کو اس لشکری زبان نے اپنے اوصاف اور دبستانوں میں محفوظ کر لیا تھا۔
اس تحریک کو روکنے کیلئے مسلمان رہنماؤں نے ہندو رہنماؤں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اردو زبان اب اسلامک انڈو آرٹ کا ایک لازمی جزو بن گئی ہے لیکن مصالحت قائم نہ کی جاسکی اور اس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں سامنے آیا ۔لیکن ثقافتوں کے ٹکراؤ کے اس دور میں سر سید احمد خان کے دو قومی نظریے نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔اس دو قومی نظریے کو ہم یوں بھی تشریح کر سکتے ہیں کہ اس کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظریے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کی دو قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علیحدہ علیحدہ اور کامل قومیں قرار دیا گیا۔انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کیلئے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا اور ہماری شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہلا سنگ میل ہے جسے مشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند با الآخر 1947ء میں اپنی منزل کو پانے میں سر خرو ہوئے۔
Wedding
کہتے ہیں اگر کسی قوم کو برباد کرنا ہو اور بغیر کسی جنگ کیئے ختم کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو!یہ ہی سب مجھے نظر آیا جب میں ایک شادی کی تقریب میں شریک تھا اور نکاح ہو جانے کے بعد سب لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے تھے اور شادی کی کامیابی کیلئے دعا کر رہے تھے کہ اچانک میرے ایک دوست کی پانچ سالہ بیٹی دوڑتی ہوئی آئی اور بڑی معصوم سی آواز میں سوال کیاکہ پاپا !پاپا یہ کیسے شادی ہو گئی ؟اس پر میرے دوست نے حیران ہو کر پوچھا کیوں بیٹا کیا ہوا؟ بچی کہنے لگی کہ انہوں نے پھیرے تو لئے ہی نہیں تو شادی کیسے ہو گئی !!میں نے ٹی وی میں دیکھا ہے کہ جب کسی لڑکے کی لڑکی کے ساتھ شادی ہوتی ہے تو وہ آگ کے گرد پھیرے لیتے ہیں اور پنڈت جی کچھ پڑھتے رہتے ہیں!! میرا دوست ہلکے سے مسکرا دیا اور اس ننھی سی بچی کے سوال کے سامنے لا جواب ہو کر رہ گیا ۔لیکن میری حالت کھاٹ پر بیٹھے اس لاچار شخص بوڑھے سے کچھ الگ نہ تھی جو اپنے ہی بیٹے کو غلط کام کرنے سے اس لیئے نہیں روک سکتا کیونکہ وہ اسکا محتاج ہوتا ہے اور اندر ہی اندر کڑہنے لگا ۔
لیکن میری یہ حالت یہیں نہیں رک گئی تھی بلکہ میں اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اس میں ان معصوموں کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ ہم جو انہیں سکھائیں گے بچے تو وہی سیکھیں گے ۔صبح سویرے سکول جانے سے پہلے بچے ٹی وی پر اپنا پسندیدہ ٹی وی چینل پر کارٹونز دیکھتے ہیں جسمیں ہندوؤ ں کی تہذیب ،ثقافت اور مذہبی عکاسی بھرپور طریقے سے کی جاتی ہے۔سپائڈر مین ،سپر مین اور بھیم ان بچوں کے فیورٹ ہیروز ہیں لیکن انہیں حضرت بہلول رحمتہ اللہ علیہ اور ٹیپو سلطان کے بارے میں علم نہیں ،انہیں رام کہانی تو بہت اچھی طرح یاد ہے لیکن غازی علم دین شہید رحمتہ اللہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور ان کی شہادت کے دن بسنت کا تہوار مناتے ہوئے پتنگ بازی کرتے ہیں اور ہندوثقافت کو بھرپور زندہ کرتے ہیں ۔میں پوچھتا ہوں کہ اسلام میں یہ تو کہیں بھی تعلیم نہیں دی گئی کہ عورت پردہ کو ترک کر کے سرعام بن سنور کر گلے میں دوپٹا ڈالے بازاروں میں پھریں؟لڑکیاں غیر محرموں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور بازوؤں میں بازو ڈالے سرعام اپنی محبت کا اظہار کریں ؟انگریزی سیکھنے اور اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے کایہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ ہم ان کی ثقافت اپنا کر اپنی ثقافت کو پس پشت ڈال دیں ۔
War of 1965
ایک نو جوان نے کسی بزرگ سے سوال کیا کہ جب میں موسیقی سنتا ہوں تو میری نیند اڑ جاتی ہے لیکن اگر میں قرآن کی تلاوت سنوں تو مجھے نیند آ جاتی ہے ؟ تو بزرگ نے کہا کیونکہ قرآن کی تلاوت سننے سے دل و دماغ کو راحت ملتی ہے جو موسیقی سے نہیں! لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے نوجوان طبقے کو موسیقی سنے بغیر نیند نہیں آتی۔پاکستان میں جتنے مسلمان ہیں ان سے پانچ گناہ مسلمان انڈیا میں اور ان سے بھی کہیں زیادہ پوری دنیا میں آباد ہیں لیکن ہم اپنی ثقافت سے انگریزوں اور ہندوؤں کو اسلام کی جانب راغب نہیں کر پائے کہ جتنا انہوں نے ایک قلیل مدت میں ہمیں کر لیا ہے۔دشمن 1965 ء کی جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد یہ جان چکا تھا کہ مسلمانوں کو جنگ کرکے ہرایا نہیں جا سکتا کہ جسکی وجہ سے انہوں نے ایسے مختلف ہتھکنڈوں سے ہماری نوجواں نسل کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔انکی سوچ کا دائرہ بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان پوری دنیا میں دشمن کے ہاتھوں بری طرح ذلیل ہو رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو الگ سے آزادملک کی حیثیت دلوانے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان آزادی سے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کریں ،مسجد میں اونچی آواز میں اعلان حق کہ سکیں اور آزادانہ قوم کی صورت میں زندگی گزاریں لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سر زمین تو ہم نے الگ کر لی لیکن شعوری طورپر آج بھی ہم ان کے غلام ہیں ۔نہ مغرب کی تہذیب ہمارے گھر سے نکل پائی اور نہ ہی اس ثقافت سے ہم بائیکاٹ کر سکے کہ جسکی وجہ سے ہم نے الگ سرزمین لینے کیلئے جدو جہد کی تھی۔ آزادی کے 68 سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہما رے درمیان یہ غلیظ ثقافتی ناسور کسی نہ کسی صورت زندہ ہیں جن کی جڑیں کاٹنے کی اشد ضرورت در پیش ہے ۔میں اللہ بارک و تعالیٰ سے اس ملک و قوم کی استقامت اور خوشحالی کیلئے اس امید سے دعا گو ہوں کہ ہماری حکومت اور ملت مل کر اس خطرناک ترین ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔۔۔ آمین۔