تحریر: محمد اکرام ہماری پْرشکوہ تہذیب و تمدن اور آدابِ معاشرت تنزلی کے کنارے پر کھڑی ہے، دربار علم و فضل راسخ العقیدگی کے مدافع اور اساس کے عروج کے مظہر حامی معاشرے کی شکست و ریخت کے عمل میں ریت کی طرح بکھر رہے ہیں، شکست فاش ان کا مقدر بنتی جارہی ہے، کیونکہ ان کے قلم قبیلے میں پھْوٹ ڈل چکی ہے۔ اِن کی اپنی اولادیں ان کے اختیار سے نکل رہی اور ان کے ہاتھ سے پھسل رہی ہیں، نجانے ان کا کون سا وہ پہلا قدم تھا یا ان کا وہ کون سا پہلا عمل تھا کہ جس پر انہوں نے اپنی گرفت کو کمزور ظاہر کیا اور معاملہ یوں ٹھہرا کہ آج کی نسل ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور اپنی نئی تہذیب و تمدن کے آدابِ معاشرت کے ساتھ ان سے بحث و تمحیص کرنے لگی،
ان کے اقوال کو ماضی کی غلطیوں کا نچوڑ بتانے لگی۔ ان کے تجربوں کے نتائج کو بیکار قرار دے کر اور ان کی پندو نصائخ کو محض خرافات جان کر اپنی دنیا آپ بنانے کا احتجاج کرنے لگی۔ ہماری آشفتہ تاریخ میں مذہب، نظریات، تہذیب و تمدن و ثقافت کا رنگ خوب جما نظر آتا ہے مگر امروز و فردا کا معاملہ مختلف ہوا رنگ ڈھنگ اور انداز و اندام ہی بدل گئے۔ اب تو تاریخ کو قصہ پارینہ قرار دے کر آج کی نسل اْس کے مخالف اور مقابل کھڑی ہو چکی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ صدیوں بعد جب آج کی تہذہب تمدن اور نظریات کے متعلق مورخین لکھیں گے تو اس دور کو کیا نام دیں گے، آزاد منش، بے راہ رو، بدتہذیبی کا دور یا پھر نئی تہذہب و تمدن کا پرچار کرنے والی بے ادبی، تعیش پرستی کی دیمک زدہ بنیادوں پر عمارت کھڑی کرنے والے غلامانہ ذہنیت کے مالک معماروں کے نام سے یہ دور جانا پہچانا جائے گا۔ دینی اور عرفانی سرگرمیاں تو خال خال نظر آتی ہیں اور بزرگی کا احترام ایک مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ دیکھنے میں تو آج کی نسل کو دنیاوی سطح پر روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے مگر روحانی سطح پر تاہنوز تاریکی کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ کوئی معمولی نوعیت کا نہیں بلکہ نسلوں کی راستی کا ہے۔
Schools, colleges
امریکی نسل کی تیاری صیہونی درسگاہوں کی تعلیم، اسلامیات اور اردو سے بیزاری، سکولوں کالجوں میں مخلوط تعلیم، شرفا کی عزتوں کا جنازہ اور ہمارے معلم کے کردار و گفتار پر اعتراضات کا پلندہ۔ اس میں تو کہیں بھی اپنی تہذیب، اپنا مذہب، اپنی پہچان نظر نہیں آتی۔ سکولوں میں معلم خواتین کے انتہائی قابلِ اعتراض لباس کو اْس سکول کی شہرت گردانا جاتا ہے۔ مخلوط تعلیم کے نظام نے اس نئی نسل کو جتنا متاثر کیا ہے اتنا تو ایک مئے خانہ بھی کسی ساقی اور رِند کو نہیں کرتا۔
باپردہ گھروں میں تہذیب و معاشرت کے جو اصول متعین ہیں جب اْن کے گھروں کی بیٹیاں اْنہیں درسگاہوں میں جاتی ہیں تو اپنی روحانی غذا اپنی جسمانی حیا اور تہذیب کو بھول کر وہ آہستہ آہستہ اْنہیں روشنیوں میں گم جاتی ہیں جن کا مقدر تاریکی ہوتا ہے اْن کیلئے کسی بھی ہم جماعت سے اس طرح بات کرنا جیسے وہ اْس کی عمر بھر کا ساتھی ہو قابل اعتراض نہیں رہتا اور تو اور اْن کے والدین بھی اْنہی کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔