تحریر : نعیم الرحمان شائق شام، جہاں پچھلے کئی سالوں سے موت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، نہ جانے وہاں کب ظلم کی شام ڈھلے گی۔ جتنے منھ ہیں، اتنی باتیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے ،بڑی طاقتیں روس اور امریکا یہ جنگ کر وارہی ہیں، تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے۔ کوئی کہتا ہے، یہ شیعہ سنی قضیہ ہے۔ کوئی کہتا ہے، یہ عرب و عجم کی لڑائی ہے۔ کوئی کیا کہتا ہے، اور کوئی کیا۔ جو کچھ بھی ہے، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں پر جو ظلم کی کالی رات چھائی ہوئی ہو، جلد از جلدامن و سلامتی کی سحر میں تبدیل ہو جائے۔
امت ِ مرحومہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل تھے۔ اب شام کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی ، ایران کا مسئلہ بھی خطرناک صورت حال پیش کر رہا ہے۔ جب تک مسلم امہ نا اتفاقی کا شکار رہے گی، اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے۔
Syria’s Violence Victim
ہم شام کی بات کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر آئی ہوئی ہوئی ویڈیوز پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ شام سے متعلق آئی ہوئی خبریں بھی پریشان کر دیتی ہیں۔ اس بات پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ اس خطہ ِ بے اماں کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے۔ نہ اپنے، نہ بے گانے۔ ہر کوئی اس علاقہ ِ بے امن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس ضمن میں سب گفتار کے غازی بنے ہوئے ہیں۔ کردار کا غازی خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ایسی گمبھیر اور پریشان کن صورت حال میں محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ بہت دیر سے حل ہو گا۔
خبریں بتاتی ہیں کہ شام کے محصور علاقوں میں لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہیں۔ کتنی افسردہ خبر ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ شام کے شمال مغرب میں حکومت کے زیر ِ انتظام علاقوں میں شہری گھاس کھانے پر مجبور ہیں۔
شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے بتایا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران خوراک کی کمی کے باعث دس افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور کھانے کی تلاش میں نکلنے والے دیگر 13 افراد حکومت کی حمایت یافتہ فوج کی فائرنگ اور سرنگ کے دھماکوں میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام کے ایک گاؤں کے اندر مزید 1200 افراد دائمی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
جب کہ 300 سے زائد بچے غذائی قلت اور دیگر بیماریوں کا شکار ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ شام ایک ایسا بد نصیب علاقہ ہے، جہاں شہری حرام جانور کھانے پر مجبور ہیں۔ایک امدادی کارکن نے بی بی سی کو بتا یا کہ شہری مر رہے ہیں۔ وہ زمین سے کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ وہ بلیوں اور کتوں کو کھانے پر مجبور ہیں۔ بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق ایک مقامی اہل کا ر نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا ہے کہ بنیادی ضرورتوں کی چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک کلو آٹے کا تھیلا 250 امریکی ڈالر اور 900 گرام وزن والا بچوں کا کھانے کا تھیلا تقریبا ََ 300 امریکی ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے۔
United Nations
شام کے کئی علاقے اور قصبے ہیں، جہاں ظلم ہی ظلم ہے۔ کھانے کی قلت ہے۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بچے مر رہے ہیں۔ لیکن کوئی ان کے پوچھنے والا نہیں ہے۔ اقوام ِ متحدہ کی درخواستیں با ر آور ثابت نہیں ہو رہیں۔ یہ عالمی ادارہ بھی کچھ نہیں کر پا رہا۔ سوائے تھوڑی بہت خوراک مہیا کرنے کے ۔ شام کے قحط زدہ قصبے مدایا میں اقوام ِ متحدہ نے امدادی سامان پہنچایا ہے۔ وہاں 30 ہزار سے زائد شہری گذشتہ کئی ہفتوں سے خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔
ادلب بھی شام کا ایک علاقہ ہے، یہاں باغی فورسز کا کنٹرول ہے۔ یہاں مارچ 2015 ء سے تقریبا َ َ بیس ہزار لوگ محصور ہیں۔ادلب اور مدایا کی صورت حال عجیب ہے۔ مدایا پر حکومت کی حامی فورسز نے قبضہ کر رکھا ہے۔ جب کہ ادلب کے دو علاقوں فوا اور کیفریہ پر حکومت مخالف فورسز کا کنٹرول ہے۔ مگر ان دونوں علاقوں کے لوگوں کی حالت قابل ِ رحم ہے۔ دونوں علاقوں کے لوگ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ان دنوں پورا شام حکومت مخالف اور حکومت موافق فورسز کے زیر ِ نگیں ہے۔ دونوں نہتے اور معصوم شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اقتدار کا نشہ بڑا خراب ہوتا ہے ۔ یہ کئی انسانوں کی جانیں لے لیتا ہے ۔ مگر پھر بھی نہیں اترتا۔
Asad ul Bashar
یہ بات تو حقیقت ہے کہ شام کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا ، جب تک عرب شیوخ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات نہ اٹھائیں۔ ہمارے مسلمان حکم رانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ امت ِ مسلمہ کے ہر مسئلے کے حل کے لیے اقوام ِ مغرب کا منھ تکتے ہیں۔ جو کہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے۔ مغرب سے آس لگائے رکھنے اور خود کچھ نہ کرنے کے ہی یہ نتائج ہیں کہ آج ہم کئی محاذوں پر شکست کھا چکے ہیں۔ شام کے مسئلے پر عرب شیوخ سے جن اقدامات کی توقع کی جارہی تھی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ نہ جانے شام میں ظلم کی شام کب ڈھلے گی؟