لاہور (جیوڈیسک) سعادت حسن منٹو ایک عہد، ایک ایسا لکھاری جس کی لکھی ہرکہانی اس کی اپنی آنکھیں ہی سرخ اور زخم ہرے کر دیتی تھی لیکن وہ لکھتا گیا اور بس لکھتا گیا۔
کسی نے اُسے دھرتی کا بوجھ قرار دیا تو کسی کے لیے اُس کا وجود ہی ناقابل برداشت ٹھہرا ، کسی طرف سے تنقید تو کہیں سے گالیاں سمیٹتا ، سعادت حسن منٹو تو بس قالین کے نیچے چھپائی گئی گندگی کو سامنے لاتا رہا تو اُس پر ہونے والی تنقید میں بھی شدت آتی رہی۔
سعادت حسن منٹو جس طرح سے معاشرے کے گال پر اپنی کہانیوں کے تھپڑ رسید کرتا رہا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اِس جرات کی اُسے سزا نہ ملتی اور یہ سزا اِس صورت ملی کہ 28 افسانوی مجموعوں کے خالق کی اپنی زندگی ہی المیہ افسانے کی صورت اختیار کرگئی لیکن پھر حسب دستوراُس کی وفات کے بعد اُسے اُردو ادب کا اب تک کا سب سے بڑا افسانہ نگار تسلیم کرلیا گیا جسے سبھی مانتے ہیں۔
11 مئی 1912 کو پیدا ہونے اور 18 جنوری 1955 کو صرف 42 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والے سعادت حسن منٹو کے اُردو ادب پر نقوش تادیر قائم رہیں گے۔